شب برأت کی حقیقت

1332

شب ِ برأت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرامؓ سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریمؐ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علما نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہا کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
شب برأت میں عبادت
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور، تابعین کا دور، تبع تابعین کا دور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعثِ اجر و ثواب ہے اور اس کی خصوصی اہمیت ہے۔
عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شبِ برأت میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اس کا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکرکریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
شبِ برأت میں قبرستان جانا
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریمؐ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ نبی اکرمؐ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لیے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برأت میں قبرستان جائیں، لیکن میرے والد ماجد مفتی محمد شفیع صاحبؒ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریمؐ سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہیے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمؐ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برأت میں جنت البقیع تشریف لے گئے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لیے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے، لیکن ہر شب برأت میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برأت کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برأت کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔
15 شعبان کا روزہ
ایک مسئلہ شب برأت کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کا ہے، اس کو بھی سمجھ لینا چاہیے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزے کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برأت کے بعد والے دن روزہ رکھو لیکن یہ روایت ضعیف ہے، لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علما کے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28 اور 29 شعبان کو نبیؐ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے۔
احادیث سے شب برأت کی فضیلت
اس رات کی فضیلت متعدد احادیث سے ثابت ہے، دس صحابہ کرام سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں، لہٰذا اس کی فضیلت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، جیسا کہ حسب ذیل دو روایتوں میں یہ فضیلت مذکور ہے۔سیدنا معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں اپنی تمام مخلوق کی طرف ایک خاص توجہ فرماتے ہیں اور مشرک اور کینہ پرور آدمی کے سوا سب کی مغفرت فرماتے ہیں‘‘۔ (بیہقی)
سیدہ عائشہؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کو (سوتے میں آنکھ کھلی) تو نبی اقدسؐ کو گھر میں نہ پایا، آپ کو تلاش کرنے کے لیے نکلی تو آپ بقیع یعنی مدینہ منورہ کے قبرستان میں ملے، آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تجھے اس بات کا خطرہ گزرا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے یعنی رسول اللہؐ تیری باری کی رات ہوتے ہوئے، کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے، میں نے عرض کیا کہ ہاں مجھے تو یہی خیال گزرا کہ آپ اپنی کسی اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا (میں کسی کے پاس نہیں گیا، یہاں بقیع آیا ہوں، یہ دعا کرنے کی رات ہے) یقیناً اللہ جل شانہ ماہ شعبان کی پندرھویں تاریخ کی رات کو قریب والے آسمان کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ، مشکوۃ المصابیح )