پاکستان کے مسائل اور اسلامی حکومت کا قیام

647

یہ عام مشاہدہ ہے کہ ہر عام انتخابات سے پہلے ضمیر فروشوں مفاد پرست خانہ بدوش ایک جماعت سے دوسری جماعت میں شامل ہوتے ہیں بالکل اسی طرح برسرے اقتدار جماعت کے اتحادی بھی حکومتی مراعات کو پوری طرح انجوائے کرتے ہیں اور جیسے ہی حکومت کی مدت ختم یا خطرے میں دکھائی دیتی ہے ان کو عوامی مسائل اپنے تحفظات کا درد ستانے لگتا ہے۔ اس وقت اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو پوری شدت کے ساتھ رخصت کرنے کی جدوجہد کا تماشا شروع ہوچکا ہے۔ پیپلزپارٹی سرکاری خزانے کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کو گرانے کے لیے کراچی سے اسلام آباد پہنچ چکی ہے تو دوسری جانب ن لیگ، مولانا اور زرداری حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں چند دنوں میں اس سیاسی دیگ کا ڈھکن اُٹھ جائے گا اور واضح ہوجائے گا کہ آنے والے وقت میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا۔
تمام تر سیاسی غیر سیاسی حلقے خان صاحب کی حکومتی ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں خود خان صاحب بھی اپنی ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں قوم کو اُمید تھی کہ خان صاحب کی حکومت پاکستان کے معاشی خارجی معاملات کو ایک درست سمت دے گی مگر غریب متوسطہ طبقے کے ساتھ ساتھ خان صاحب کے ساتھیوں کو بھی بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کورونا کی آفت نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہ برباد کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی امریکا چین جیسی بڑی بڑی معاشی طاقتیں اس وباء کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور دکھائی دیں پھر پاکستان جو پچھلے چالیس سال سے معاشی بحران میں مبتلا رہا ہو ایسے ممالک کی معیشت کو تو کورونا نے اپنی لپیٹ میں باآسانی لے ہی لیا جس کا منفی اثر غریب متوسطہ طبقے پر پڑا اور سیاسی نقصان حکومت کے حصہ میں آیا۔
یہ اس ملک و قوم کی بد بختی رہی کہ ہر برسرے اقتدار آنے والی جماعت نے قوم کو سہانے خواب دکھا کر لوٹا ہے، بڑے بڑے دعوے کیے گئے مگر اداروں کو سیاسی غلامی پر مامور رکھا گیا جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ پچھلے چالیس اور موجودہ چار سال کا کوئی مواذنہ نہیں کیا جاسکتا پچھلے چالیس سال جن لوگوں نے اس ملک کے خزانے کو اس ملک کی غریب متوسطہ طبقے کی امانتوں کو لوٹا شاید وہ کرپشن اس دور میں نہیں ہوئی البتہ اس دور میں سیاسی چور ڈاکوئوں کو جیلوں میں عدالتوں میں ضمانتیں لیتے دیکھا گیا جو پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنی۔
اس ملک کو ہر جانب سے نقصان پہنچایا گیا اس ملک کی جڑوں کو کمزور کرنے کی اندر سے سازش کی گئی اس ملک کے دشمنوں کو تو جرأت نہ ہوئی مگر مفاد پرست سیاستدانوں نے دشمن کی کمی کو پورا کیا، وطن عزیز آج بھی بہتر شفاف نظام سے محروم دکھائی دے رہا ہے مگر آج بھی اس ملک و قوم کو سنجیدہ محب وطن غریب قوم کا درد رکھنے والا لیڈر میسر نہیں یقینا اس وقت ملک کو معاشی، سیاسی، دفاعی بحران کا سامنا ہے مگر تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کی جنگ میں مصروف ہیں۔
اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا پاکستان کی سیاست پر کیا اثر ہوگا یہ تو چند روز میں نظر آجائے گا مگر اس تحریک کا اس ملک و قوم کے مسائل پر کیا اثر ہوگا یہ کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کر رہا۔ جو لوگ اس تحریک کی کامیابی کا دعویٰ کر رہے ہیں کیا وہ غریب کی زندگیوں میں ترقی وخوشحالی لے آئیں گے؟ کیا غریب کو انصاف اس کی دہلیز پر ملنے لگے گا؟ کیا دہشت گردی جرائم کا سلسلہ ختم ہوجائے گا؟ کیا زیادتی کے کیس، جعلی پولیس مقابلوں میں نوجوانوں کا قتل عام بند ہوجائے گا؟ کیا یہ تحریک غیر جانبدار شفاف انتخابات کو یقینی بنا سکے گی؟ کیا غیر جانبدار احتساب کے ذریعے کرپشن کا خاتمہ ہوسکے گا۔
یقینا اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج کی اپوزیشن تین تین بار برسرے اقتدار رہ چکی ہے مگر ایک بار پھر یہ قوم ایسا شفاف منظر نہیں دیکھ سکی پھر اپوزیشن اور موجودہ حکومت سے اُمید وابستہ کرنا شاید اپنے آپ کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا اس ملک کی سلامتی، بڑھتے ہوئے مسائل کا حل اسلامی حکومت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں اسلام کے مضبوط اصولوں کے تحت تمام تر مسائل کے حل کو ممکن بنایا جاسکتا ہے یاد رکھیں جس ملک میں انصاف لاپتا اور تماشا بن جائے وہ قومیں کبھی ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن نہیں ہوسکتیں یہ ملک و قوم اس ملک کے بااثر ادارے ملک کی تمام تر سیاسی جماعتوں کو آزماء چکے ہیں اب وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ یہ ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا اس ملک کو ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن کرنے کے لیے ایک بار اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کی جائے تاکہ یہ ملک درست سمت پر گامزن ہوتے ہوئے ترقی وخوشحالی کی جانب آگے بڑھ سکے اس وقت پاکستان کو اسلامی حکومت کے قیام کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے اس ملک کی تما م تر اسلامی دینی مذہبی جماعتوں علماء کرام مشائخ حضرات کو مل کر ایک پلٹ فام پر یکجا ہوکر اس ملک کو تباہ برباد کرنے والوں، قومی خزانہ لوٹنے والوں، بیرون ملک ناجائز اثاثے بنانے والوں کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ اب یہ قوم ان کے جعلی مصنوعی خوابوں میں نہیں آئے گی اب اس ملک میں ایک حقیقی اسلامی حکومت کا قیام ممکن بنایا جائے گا جو ملک و قوم کو ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن کرنے میں اپنا حقیقی کردار ادا کرے گی۔