تفہیم المسائل

چندہ دینے والوں کی کمائی کی تحقیق
یہ بات درست ہے کہ دینی، دعوتی یا رفاہی کاموں کے لیے کوئی پروجیکٹ شروع کیا جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں صرف حلال پیسہ ہی لگے۔ یہ رویہ صحیح نہیں کہ پروجیکٹ بڑا ہو تو ہر طرف سے، ہر طرح کا پیسہ، چاہے وہ حلال ہو یا حرام طریقے سے کمایا گیا ہو، جمع کرنے کی کوشش کی جائے۔
لیکن اس معاملے میں بہت زیادہ کھود کرید بھی نہیں کرنی چاہیے کہ چندہ دینے والے ہر شخص سے دریافت کیا جائے کہ تمھاری کمائی کیسی ہے؟ اور کیا تم یہ چندہ اپنی حلال کمائی سے دے رہے ہو؟ عام حالات میں مسلمان چندہ دہندگان سے حسن ظن رکھنا چاہیے کہ وہ دینی اور رفاہی کاموں میں اپنی حلال کمائی ہی لگائیں گے۔ البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ اس کا پورا کاروبار ناجائز چیزوں کا ہے اور اس کی پوری کمائی حرام ہے تو اس سے مالی تعاون لینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ بتاکر دے کہ یہ رقم فلاں حرام مد کی ہے، تو اسے بھی نہیں لینا چاہیے۔
اسی طرح مذکورہ بالا احتیاط کے ساتھ دینی اور رفاہی کاموں میں برادرانِ وطن سے بھی مالی تعاون قبول کیا جا سکتا ہے۔ فقہا نے یہاں تک لکھا ہے کہ برادرانِ وطن میں سے کوئی شخص اگر اپنی خوشی سے مسجد کی تعمیر میں اپنی طرف سے کچھ مالی تعاون کرنا چاہتا ہے تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
٭…٭…٭
رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال
نکاح کے ضمن میں جن چیزوں کا حکم دیا گیاہے ان میں سے ایک مہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔ (النساء: 4)
نکاح منعقد ہوتے ہی لڑکی مہر کی مستحق ہوجاتی ہے اور اگر بروقت شوہر مہر ادا نہ کرسکے تو وہ اس کے ذمّے قرض رہتا ہے۔ اس لیے اگر رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو بھی لڑکی پورے مہر کی مستحق ہوگی۔قرآن کریم میں عدّتِ وفات کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے:
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں‘‘۔ (البقرہ: 234)
یہ حکم عام ہے، اس لیے اس میں ہر طرح کی عورتیں شامل ہیں۔ وہ بھی جن کا نکاح تو ہوگیا ہو، لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو۔ عدّتِ وفات کا حکم اصلاً شوہر کی وفات پر اظہارِ غم کے لیے دیا گیا ہے۔