فیمنزم: ایک نئی معاشرت کی بنیاد

588

دوسرا حصہ

مردوں اور عورتوں کے درمیان صرف جسمانی نہیں، مزاج اور نفسیات کے بھی واضح فرق ہیں۔ عام طور پر ایک مرد، عورت سے زیادہ جسمانی طاقت رکھتا ہے۔ عام طور پر شیر خوار لڑکے ٹرک اور کار نما کھلونے اٹھاتے ہیں اور لڑکیاں، گڑیاں۔ اسکول میں لڑکے کچھ اور مضامین میں اچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں کچھ دوسرے مضامین میں۔ ان کے دماغ واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ فیمی نسٹ مردوں اور عورتوں کے درمیان حیاتیاتی فرق بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مشہور فرانسیسی فیمی نسٹ سیمون ڈی بوایر اپنی کتاب ’’The Second Sex دوسری جنس‘‘ میں عورت کے جسم اور اس کے حیاتیاتی وجود ہی کو ’’عورت کے ساتھ ناانصافی قرار دیتی ہے‘‘۔ اس کے بقول چونکہ تولید کے عمل میں جن مشقتوں سے عورت کو گزرنا پڑتا ہے، اُن سے مرد نہیں گزرتا۔ اس میں مساوات کے لیے ضروری ہے کہ اس حیاتیاتی رکاوٹ پر قابو پایا جائے۔ حقیقی انصاف اس وقت ہوگا جب افراد کو اپنی جنس منتخب کرنے کا حق حاصل ہو‘‘۔
یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مرد اور عورت کی برابری کے پُر شور نعروں اور دعووں کے باوجودزندگی کے کسی بھی شعبے میں عورت کو مرد کے برابر درجہ نہ مل سکا حتی کہ فلمی شعبے میں بھی مرد اداکاروں کی اہمیت اور معاوضے عورتوں سے زیادہ ہیں۔ بہرحال مرد اور عورت برابر ہوں یا نہ ہوں، سرمایہ داریت اپنے مقصد میں کامیاب رہی اور اسے ہر شعبے میں سستی لیبر مل گئی۔
2۔ عورت کے معاشی خود انحصاری کے عمل نے نہ صرف یہ کہ عورت کو عملی طور پر مرد سے بے نیاز کردیا بلکہ اس قدیم رواج کو بھی پا مال کردیا کہ معاش مرد کی اور گھر عورت کی ذمے داری ہے۔ اب دونوں مل کر کمائیں گے اور صرف شہوانی خواہشات کی تسکین کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔ اس نئی صورتحال نے مغرب میں سوال یہ پیدا کردیا کہ وہ عورت جو خود کماتی ہے، خود اپنی ہر ضرورت پوری کرتی ہے، شوہر کی مدد اور اعانت کی محتاج نہیں، دن بھر طرح طرح کے مردوں کے درمیان گھری رہتی ہے کیوں ایک مرد کی چاکری کرے۔ کیوں اخلاقی اور قانونی پابندیوں کی پاسداری کرتی رہے جب کہ اسے یہ یقین نہ ہو کہ اس کا شوہر بھی ایسی ہی بندشوں کا پابند ہے یا نہیں لہٰذا عورت مرد کے تسلط سے آزاد ہوتی چلی گئی۔ آسان اور پر لطف راستہ چھوڑ کر وہ کیوں قربانیوں اور ذمے داریوں کا دقیانوسی راستہ اختیار کرے۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں شادی کے بغیر جنسی زندگی کا رواج شروع ہوا۔ میاں بیوی کی جگہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ نے لے لی۔ بغیر شادی کے اور بغیر کسی طویل مدتی عہدنامے کے، ساتھ رہنے کا سلسلہ چل پڑا۔
دوسرے مرحلے میں کج روی پر مشتمل جنسی رجحانات کی نئی اقسام کا تصور عام ہوا جنہیں انصاف اور مساوات کے تصور سے جوڑ دیا گیا۔ اس ’صنفی انقلاب‘ کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہا گیاکہ: ’’جنسی تعلق مرد اور عورت کے درمیان ہی ہو، یہ ضروری نہیں ہے۔ فطرت نے کئی طرح کے جنسی جذبے پیدا کیے ہیں۔ مرد اور مرد یا عورت اور عورت مل کر ہم جنسی خاندان بھی بناسکتے ہیں‘‘۔ کہا گیا کہ ’’یہ جذبات بھی فطری ہیں اور ایسے جذبات رکھنے والے اگرچہ جنسی اقلیت ہیں مگر ان کے حقوق کا تحفظ عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ ہم جنسیت کے خلاف کچھ بولنا ظلم کی تائید اور ظلم کی راہ ہموار کرنے کے مساوی قراردے دیا گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تمام مغربی معاشروں میں اور اس کے بعد مشرقی معاشروں میں بھی ہم جنس جوڑے عام ہوگئے۔ کئی ملکوں میں ان کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہوگیا۔
تیسرے مرحلے میں مشینوں اور جنسی مصنوعات کے ساتھ صنفی تعلق کی ہمت افزائی کی جارہی ہے۔ ایسے کھلونوں اور روبوٹوں کی یہ صنعت اب پچاس ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے جس میں 30فی صد سالانہ کی رفتار سے ترقی ہورہی ہے۔ ایسے جنسی روبوٹ (sexbot) تیزی سے عام کیے جارہے ہیں، جو شوہر یا بیوی کا کردار ادا کرسکیں۔
3َ۔ مرد اور عورتوں کے درمیان برابری اور معاشی خود انحصاری کے غلط افکار کا نتیجہ آزادانہ میل جول اور تعلقات کی صورت میں بر آمد ہوا۔ عصمت کا تصور تو کہیں ابتدا ہی میں فراموش کردیا گیا تھا۔ آزادانہ ملاپ نے عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانی اور فحاشی کو اس درجہ ترقی دی کہ کوئی اخلاقی خیال اس راہ میں حائل نہ رہ سکا۔ اس طرز زندگی نے عورت کو صرف جسم اور جسم بنا کر رکھ دیا جس کی آرائش، زیبائش اور نمائش نے اربوں ڈالرز کی فیشن انڈسٹری کی بنیاد رکھ دی۔ ہر دن نئی نئی پراڈکٹس وجود میں آنے لگیں، صنفِ نازک جن کا اشتہار بنی، خوبصورتی اور حُسن کے نئے نئے معیارات (Standards) بنائے گئے اور پھر عورت کو ان معیارات کے حصول کی تنی ہوئی رسی پر چلایا گیا۔ عالمی مقابلہ حُسن سے لے کر چھوٹی سطح کی ماڈلنگ تک حُسن کے وہ معیار مقررکیے گئے کہ عورت کے جسم انچ انچ ناپا جانے لگا۔ عزت کے معیار ہی بدل دیے گئے۔ عورت کے لیے ماں، بیٹی، بہن، بیوی اور بیٹی ہونا اعزاز نہیں رہا۔ اس کے بعد عورت آئندہ نسلوں کی ذمے داری کو آیائوں، ڈے کیئر سینٹروں اور پری نرسری اسکولوں کے سپرد کر کے گھر سے باہر نکل گئی۔
جنسی آوارگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سو سال کے دوران میں امریکا میں شادی کی شرح میں 66فی صد کمی آئی ہے۔ گویا سو سال پہلے ہر سال جتنی عورتیں شادی کرتی تھیں، آج اس کے مقابلے میں آبادی میں اضافے کے باوجود 66فی صد کم عورتیں شادی کررہی ہیں۔ شادی کی عمر والے افراد میں صرف 52فی صد امریکی ہی رشتہ ازدواج میں بندھے ہوئے ہیں۔ تقریباً آدھی آبادی ’خاندانی غلامی‘ سے ’آزاد‘ ہے۔ 52فی صد بچے ’اکیلی ماں‘ کے ساتھ رہ رہے اور ان میں سے اکثر کے باپ کا تعین ممکن ہی نہیں۔ دوتہائی امریکی آبادی یہ تسلیم کرتی ہے کہ دو مرد یا دو عورتیں مل کر بھی فیملی بناسکتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرسکتے ہیں۔ (تفصیلات دیکھیے: پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ The Decline of Marriage and Rise of New Families)۔
یہ معاملہ صرف مغربی معاشروں تک محدود نہیں ہے۔ جاپان میں گزشتہ عشرے میں طلاق کی شرح میں 66فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اور وہاں کے مزدوروں میں ’اکیلی ماں‘ کا تناسب 85فی صد ہے۔ چین میں بھی خاندانی نظام تیزی سے زوال کا شکار ہے۔ چلی میں 70فی صد اور میکسیکو میں 68فی صد بچے غیر شادی شدہ پیدا ہوئے ہیں۔ یہی صورت حال اسٹونیا، بلغاریہ جیسے ملکوں کی ہے۔ بھارت کے شہری علاقوں میں بھی ہم جنس خاندانوں اور طلاق کی شرح تیزی سے ’ترقی کی منازل‘ طے کررہی ہے۔
ان ’نسائی تصورات‘ نے مغربی معاشروں میں عورتوں اور مردوں کے درمیان بظاہر غیر فطری مساوات تو قائم کردی، لیکن خاندان اور خود عورت کی ذات کو اس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔
ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام نے خاندان کے بارے میں یہ تصور پیش کیا کہ یہ ’’پدر شاہی‘‘ (Patriarchal) ادارہ ہے اور اس کا اصل مقصد عورت کا استحصال کرنا ہے‘‘۔ دوسری طرف مارکسی مفکرین نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہا کہ ’’یہ بورژوا طبقہ کا ایک استحصالی آلہ کار ہے اور خاندان کے ادارے کا بنیادی مقصد دولت کی تقسیم کو روکنا اور بورژوا طبقے کی طاقت کو استحکام بخشنا ہے‘‘۔ ان سرگرم کار تصورات نے یہ یقین پیدا کیا کہ خاندان کی انسان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنسی آوارگی عام ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ خاندانی ادارہ تیزی سے معاشرے سے غائب ہونے لگا۔ 39 فی صد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’اب خاندان کا ادارہ اذکارِ رفتہ (out date) اور متروک ہوتا جارہا ہے‘‘ (تفصیلات دیکھیے: پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ The Decline of Marriage and Rise of New Families) خاندان کا نظام، مغربی دنیا میں زوال پزیر ہونے کے بعد اب تیزی سے مشرقی معاشروں میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ مشرقی معاشروں میں عورت کا روایتی کردار پامال ہورہا ہے۔
(جاری ہے)