کتے کی ذات

737

اس آدمی کو اب جانا ہی ہوگا جسے عام لوگوں نے منتخب نہیں کیا تھا۔
عمران خان کے پاس وزیراعظم بننے کے لیے اس کے سوا کوئی کوالیفیکشن نہیں تھی کہ وہ ان کا انتخاب تھے نوازشریف جن کا انتخاب نہیں تھے۔ جب تک وہ ایک صفحے پر رہے ان کے پاس دوسروں کے لیے اتنا وقت بھی نہیں تھا جتنا وقت کسی کی نظر سے گرنے میں لگتا ہے۔ کسی کو ’’خطرے ناک‘‘ دکھائی دینے کے لیے وہ آج کل عوامی جلسوںکو اپنی بے دماغی سے رونق بخش رہے ہیں۔ ان کا میلسی کا جلسہ نوکری کی برقراری کی تازہ درخواست تھی۔ اس جلسے میں پاکستان کے عوام ایک ایسے ڈینٹسٹ کی کرسی پر منہ کھولے بیٹھے تھے جسے پتا ہی نہیں منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں اور زبان کو مجنونانہ چلانے سے کیسے باز رکھا جاسکتا ہے۔ عوام کی بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی سے مخاطب ہونے کے بجائے وہ اپوزیشن کے سر سے جوئیں نکالتے رہے۔ الفاظ کے انتخاب میں وہ جس طرح بدتہذیبی کرتے ہوئے دھمکیوں پر اترے ہوئے تھے وہ ایسا کھوکھلا پن تھا جو مایوسی کی وسعت سے جنم لیتا ہے۔ گفتگو میں شائستگی اور تہذیب انسانی قلب کی فطری شرافت کی عکاس ہوتی ہے وزیراعظم اس باب میں ایک بہت بڑا خلا ہیں۔ میلسی کے جلسے میں وہ ایسے آئینہ کے سامنے کھڑے تھے جس میں چہرہ نظر آنا تو دورکی بات ہے خود آئینہ نظر نہیں آتا۔ عیار فرنگیوں پر انہوں نے جس طرح گولہ باری کی وہ ایسی بیماری کی علامت تھی جس میں اخلاقی مریض کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
تقریر میں وزیراعظم عمران خان نے مغرب سے سوال کیا کہ جب بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو ضم کیا تھا اس وقت آپ کہاں تھے؟ اس پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک واقعہ سن لیجیے۔ ایک نواب صاحب اپنی محل سرا میں لونڈیوں اور کنیزوں کے ساتھ عیش کررہے تھے کہ کہیں سے ایک سانپ نکل آیا۔ تمام کنیزیں تخت پر چڑھ کر چلانے لگیں ’’ارے کسی مرد کو بلائو، ارے کسی مرد کو بلائو‘‘ ان کی دیکھا دیکھی نواب صاحب بھی چلانے لگے ’’ارے کسی مرد کو بلائو، ارے کسی مرد کو بلائو‘‘۔ ایک کنیز نے نواب صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ’’حضور مرد تو آپ بھی ہیں‘‘ کشمیر کے حوالے سے جو سوال عمران خان نے مغرب سے کیا ہے تو یہ سوال تو خود ان سے بھی بنتا ہے بلکہ ان سے زیادہ بنتا ہے کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے مغرب کی نہیں۔ جب مودی نے کشمیر غضب کیا اس وقت تو وہ تخت پر چڑھے عالمی رائے عامہ کو آوازیں دے رہے تھے کہ وہ بھارت کی زیادتیوں کا نوٹس لے۔ پاکستانیوں کو نصیحت کر رہے تھے کہ کشمیریوں کے ساتھ اس سے بڑھ کر دشمنی نہیں ہوسکتی کہ پاکستان سے ان کی مدد کی جائے۔
مغرب سے ناپسندیدہ رویہ اختیار کرنے پر عمران خان جو سوالات اٹھا رہے ہیں وہی اگر ان سے کیے جائیں تو سوالنامہ کچھ یوں ترتیب پائے گا۔ آپ نے اہل کشمیر کے حق میں ایک گولی فائر کرنے کا حکم دیا؟۔ آپ نے بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کیے؟ آپ نے بھارت کے سیاسی اور تجارتی راستے بند کیے؟ آپ نے کرتار پور راہداری بھارتی شہریوں کے لیے کھولی ہوئی ہے جبکہ بھارتی درندے ہماری کشمیری مائوں، بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری کررہے ہیں، ہمارے بچوں، جوانوں اور بوڑھوں پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ آپ کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں کر کٹر سدھو کے چٹکلوں سے لطف اندوز ہورہے تھے لیکن کنٹرول لائن بند کررکھی تھی تاکہ کوئی پاکستانی کشمیری مجاہدین کی مدد کو نہ پہنچ جائے جب کہ بھارتی بارڈر آمدو رفت کے لیے طوائف کی عصمت کی طرح کھلے پڑے تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے یورپی سفیروں سے دریافت کیا کہ ’’کیا ہم آپ کے غلام ہیں جو آپ کہیں وہی کریں‘‘۔ حیرت ہوتی ہے یہ الفاظ وہ شخص کہہ رہا ہے جس کی ساری زندگی ’’حالی اب آئو پیروی مغرب کرو‘‘ کہتے اور اس پر عمل کرتے گزری ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کون سا کام ہے جو انہوں نے مغرب کی خوشی کے لیے نہیں کیا۔ مغرب کا وہ کون سا مطالبہ ہے جو انہوں نے پورا نہیں کیا۔ یہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت ہے جو رسالت مآبؐ کی حرمت اور ناموس پر معاشی مفادات کے نام پر مغرب کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہی۔ عمران خان اٹھتے بیٹھتے ریاست مدینہ اور اسلام اسلام کرتے ہیں لیکن گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانس کے سامنے کھڑے ہونے پر تیار ہوئے اور نہ، فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے پر۔ شعوری، غیر شعوری، ارادی غیرارادی طور پر ان کا ریشہ ریشہ مغرب پسند ہے۔ چند ماہ پہلے جب فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر پاکستان کے شہری سڑکوں پر برسر احتجاج تھے ان کی حکومت بے دردی سے مظاہرین پرگولیاں برسارہی تھی۔ اپنے ہی شہریوں کو قتل کررہی تھی۔
معیشت کے میدان میں خان صاحب کی حکومت نے جس طرح آئی ایم ایف کی تابعداری کی ہے وہ ایک مسخ ضمیر کے بغیر ممکن نہیں۔ جب سے وہ حکومت میں آئے ہیں معیشت کی بربادی کے لیے ہروہ قدم اٹھا رہے ہیں جس کا نتیجہ آئی ایم ایف کی بدترین غلامی کے سوا کچھ نہ نکلے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کی تکمیل کی اسمبلیوں کی قراردادوں کے ذریعے ضمانت دی گئی۔ آئی ایم ایف کو سود کی ادائیگی کے لیے وہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عام آدمی کی جیب کے ایک ایک روپے پر ڈاکا ڈال رہے ہیں۔
عمران خان سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا آخری منظر نامہ دہرا رہے ہیں جب اپوزیشن نے ان کے گرد حصار سخت کررکھا تھا اور اس حصار سے نکلنے کے لیے انہوں نے ایک جلسہ عام میں امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کا خط لہراتے ہوئے کہا تھا سفید ہاتھی میرے خلاف سازش کررہا ہے۔ اس سے پہلے وہ امریکا پر شدید تنقید کرچکے تھے۔ عمران خان بھی اسی فکرو عمل کا سہارا لے کر حقائق کا منہ موڑکر عوام کی نظروں میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں لیکن اس کھو کھلے ہیروازم سے بھٹو کی طرح انہیں بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان کو سیاسی قیادت ہی کا نہیں ایسی نظریاتی قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے جس کا قبلہ مغرب اور مغربی کفریہ افکار نہ ہوں۔ جو سرمایہ دارانہ نظام اور مغرب کا اقتدار قائم کرتے ہوئے جذباتی اسلامی نعروں اور مغرب سے نفرت کے دعووں کا پرفریب منظر نامہ تخلیق کرنے کے بجائے حقیقی اسلامی افکار کے ذریعے حکومت کرنے پر یقین رکھتی ہو۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت اسلام کے سیاست اور ریاست میں پھیلتے ہوئے کردار اور حمایت کو ریاست کے معاملات کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتی اور اسے ایک مسئلہ سمجھتی ہے۔ وہ اس مغربی سیاسی اتفاق رائے پر یقین رکھتی ہے اور اسے ریاستی رٹ کی صورت دیکھنا چاہتی ہے جو اسلام سے متصادم ہے اور جسے پاکستانی عوام ہر دور میں مسترد کرتی آئی ہے۔ عوام کے اسلامی جذبات کو خود ان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے، انہیں دھوکا دینے کے لیے یہ حکمران مغرب سے نفرت اور ریاست مدینہ جیسے نعرے بلند کرتے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ منتخب مغربی نظاموں، روشن خیال اور اعتدال پسندی کے گمراہ نظریات کو اسلام کے نفاذ کی صورت میں تتر بتر کرنے پر تیار نہیں۔ سیدنا عمرؓ کا قول ہے ’’عرب ذلیل تھے اللہ نے انہیں اسلام کے ذریعے عزت دی‘‘۔ ہمارے حکمران قبیلے کا مخصوص نشان اسلام نہیں مغرب ہے۔ یہ مغرب کی غلامی ہی میں عزت تلاش کرتے اور محسوس کرتے ہیں۔ ایک فقرہ بولاجاتا ہے ’’کتے کی ذات‘‘۔ کتے کی ذات تو شروع سے آخرتک ایک ہی رہتی ہے لیکن اس کا تعین ان حرکتوں سے کیا جاتا ہے جو وہ انجام دیتا ہے۔ مغرب کی غلامی کے معاملے میں پاکستان کے سب حکمران ایسی ہی حرکتوں کے مرتکب رہے ہیں جن میں سے ایک عمران خان بھی ہیں۔