وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہی لسانی و قومی تعصبات میں اضافے کا باعث بنی ہے

622

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق)وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہی لسانی و قومی تعصبات میں اضافے کا باعث بنی ہے‘ اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی مملکت کے خدوخال کو نظرانداز کیا گیا‘ حکمرانوں نے’’ عوام کو لڑائو اور حکومت کر و‘‘ کی پالیسی اختیار کی‘ ہر فوجی آمر نے لسانی تعصبات کو ہوا دی‘ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے دو قومی نظریے کا تشخص مجروح کیا‘ جماعت اسلامی نے ہمیشہ تعصبات کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، جماعت اسلامی کی ڈائریکٹر امور خارجہ اور سابق سینیٹر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور پروفیسر ڈاکٹر اسامہ شفیق نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’اسلامی ریاست کہلانے کے باوجود پاکستان لسانی و صوبائی تعصبات کا شکار کیوں ہے؟‘‘ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ ہم اسلامی ریاست کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن عملدرآمد نہیںکر رہے‘ لسانی و صوبائی تعصبات کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر پاکستان میں اب تک کوئی لسانی پالیسی نہیں بنائی گئی‘ ہم اب تک یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ ہمارا ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان کیا ہونی چاہیے‘ عدالت عظمیٰ کے جسٹس ایس کے جواد صاحب کے فیصلے اور آئین میں بھی اردو کے حوالے سے شقوں کے باوجود ان کی اساس پر کسی قسم کی لسانی پالیسی نہیں بنائی جا سکی‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ لسانی پالیسی بن جائے‘ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی اپنی مادری زبان میںدی جائے اور اس کے بعد اردو کو ہی رابطے کی زبان بنایا جائے‘ اس کے بغیر پاکستان نامکمل ہے‘ اردو کے لیے ایک منظم انتظام ہونا چاہیے جبکہ انگریزی کو بھی نظر انداز نہیںکرنا چاہیے کیونکہ یہ بین الاقوامی زبان ہے ‘ وہ ممالک جنہوں نے انگریزی کو بالکل ترک کر دیا تھا وہ بھی اب دو بارہ انگریزی کی جانب پلٹ رہے ہیں‘ سائنس، نیچرل سائنس، بائیوجیکل سائنس، سوشل سائنس یعنی معاشرتی علوم میں بھی ہمیں انگریزی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے‘ جہاں تک بات صوبائی تعصبات کی ہے اس کے لیے ہمیں این ایف سی ایوارڈ پر عملدرآمد اور پس ماندہ علاقوں کی ترقی کو بھی یقینی بنانا ہوگا‘بلوچستان، خیبر پختونخوا، اندرون سندھ اور پنجاب کے جنوبی علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان کو بھی ترقی یافتہ اضلاع کے برابر لایا جائے تو پھر ہم امید کر سکتے ہیں کہ لسانی اور صوبائی تعصبات کو بہت حد تک کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کو چلانے والوں نے کبھی بھی اسلامی ریاست کے خدوخال کو اجاگر نہیںکیا جس کی وجہ سے لسانی تعصبات نے جنم لیا‘ حکمران ’’لڑاؤ، تقسیم کرو اور حکومت کر و ‘‘ کی پالیسی کے تحت حکمرانی کرتے ہیں‘ قومیتوں کو آپس میں جتنا زیادہ لڑایا جائے گا‘ نسلی، لسانی اور صوبائی تعصبات کو اتنا ہی ابھار ا جا سکتا ہے‘ اسی وجہ سے ملک عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے‘ اس طرح اس ملک میں اتنا ہی حکومت کرنا آسان ہوجاتا ہے ‘ملک کی تمام چھوٹی قوتیں مل کر اگر متحد ہوجائیں تو پھر تعصب پسند جماعتوں کا حکومت کرنا بہت مشکل ہوجائے گا‘ اس لیے چھوٹی جماعتوںکو آپس میں لڑایا جاتا ہے اور تقسیم در تقسیم میں الجھا کر ان پر حکومت کی جاتی ہے ‘ پاکستان کے آئین میں 4 بنیادی اصول ہیں‘ یہ ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی مملکت ہے‘ اس کے یہ چاروں ستون آپس میں مضبوط مستحکم ہوں گے تو عمارت بھی مضبوط ہوگی اور اگر یہ کمزور اور غیر مستحکم ہوںگے تو اسلامی ریاست کی عمارت بھی کمزور اور ناتواں ہوگی‘ اس ضمن میں جماعت اسلامی نے ہر دور میں اس حوالے سے اپنا کردار ادا کیا ہے اور یہ ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنی جماعت میں بھی تمام لسانی اور نسلی تعصبات کا قلع قمع کیا ہے‘ اس کا ایک اچھا منظر اس طرح پیش کیا کہ جب 2002ء میں جماعت اسلامی اسمبلی میں آئی تو جماعت نے پٹھانوں کو پنجاب سے جبکہ پنجابیوں اور مہاجروں کو صوبہ (سرحد) خیبر پختونخوا سے منتخب کرایا‘ اس طرح جماعت اسلامی نے ایک قومی وحدت کے طور پر ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ ڈاکٹر اسامہ شفیق نے کہا کہ یہ ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا سب سے پہلے تو اس نظریے کی ہی نفی کردی گئی‘ دو قومی نظریے کو جس طرح نئی نسل کے ذہنو ں میں راسخ کرنا چاہیے تھا‘ وہ نہیں کیا جاسکا‘ پاکستان میں صرف اردو بولنے والوں نے ہی نہیں بلکہ پنجابی بولنے والے مہاجروں نے بھی بہت بڑی تعداد میں ہجرت کی تھی لیکن ہماری سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے دو قومی نظریے کا تشخص مجروح کیا اور لسانی و قومی تعصبات کی بنیاد پر قومیتوں کی تشکیل کی یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم لسانی و قومی تعصبات کا شکار ہوکر انہی کو قومیتیں گردانتے ہیں اس طرح کی پالیسی یا رویے میں اضافہ اس وقت ہوا جب 1965ء سے 1971ء کے درمیان ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اشرافیہ نے غیر محسوس انداز میں نفرتوں کا بیج بو کرمشرقی پاکستان کو اقتدار سے محروم کردیا جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا‘ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی آمر نے لسانی تعصبات کو ہوا دی تاکہ اپنے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھی جا سکے ‘ دوسری کچھ وجوہات سیاسی، قانونی اور دستوری نوعیت کی بھی ہیں‘ 1973ء کے آئین میں تقریباً 19سے زیادہ ترامیم ہوچکی ہیں‘18ویںترمیم کے بعد وسائل وفاق سے نکل کر صوبوں تک منتقل تو ہوگئے ہیں لیکن صوبوں کے تمام علاقوں میں وسائل یکساں طور پر تقسیم نہیں کیے جا رہے‘ ان کو مزید نچلی سطح تک منتقل نہیں کیا جا رہا ہے‘ وسائل پر قبضہ پہلے وفاق کا تھا اور اب صوبوں کا ہوگیا ہے ‘ شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ اسی طرح سندھ میں بھی وسائل کراچی سے جمع کیے جاتے ہیں لیکن اس شہر کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا‘پانی کا معاملہ دیکھیں تو پانی سارا کا سارا خیبر پختون خوا سے آرہا ہے لیکن وہاں بھی بڑے بڑے شہروں کو لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ انہیں بھی پانی اور بجلی کی رائلٹی نہیں دی جا رہی اسی طرح بلوچستان جہاں سوئی کے مقام سے گیس نکلتی ہے وہی علاقہ گیس سے محروم ہے ‘ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یکساں وسائل کی تقسیم کی جاتی‘ بتدریج کوٹا سسٹم کا خاتمہ کر دیا جاتا لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہر بار کوٹا سسٹم کو ایک نئی توسیع دی جاتی رہی ہے‘ ہمیں ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسی ترمیم کرنی چاہیے کہ جس کی بنیاد پر لسانی اور قومی تعصبات کو ختم کیا جاسکے ‘ دراصل زبان اور علاقائی جھگڑوں میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہی لسانی وقومی تعصبات میں اضافے کا باعث ہے۔