ایمان بالغیب

700

اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز (باقاعدگی سے) قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ (باقاعدگی سے) ادا کرتے ہیں اور جو نعمتیں ہم نے ان کو عطا کی ہیں، ان میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور جو اُس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا اور اُن (سماوی کتب) پرجو آپ سے پہلے (انبیائے کرام پر) اُتاری گئیں اور آخرت پر بھی ایمان لاتے ہیں، (البقرہ: 3-4)‘‘۔ اس آیت میں متقین کی پہلی صفت ’’ایمان بالغیب‘‘ بتائی گئی ہے، غیب کی بابت علماء نے کہا: ’’اُن امور پر ایمان جو ہم سے غائب ہیں یا جن کو ہم حواسّ اور بداہتِ عقل سے نہیں جان سکتے، جیسے: اللہ کی ذات، ملائک، جنت، جہنم، قیامِ قیامت، کتبِ الٰہی، انبیائے کرامؑ کی نبوت، تقدیر، بعث بعدالموت اور اُخروی جزا وسزا کا نظام وغیرہ‘‘۔
امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں: ’’ابو مسلم اصفہانی نے لکھا: ’’یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْب‘‘ کے معنی ہیں: جس طرح وہ رسول اللہؐ کے سامنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، اسی طرح آپ کے پس ِ پشت بھی ایمان رکھتے ہیں، اُن کا حال اُن منافقوں سے مختلف ہے جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لائے اور جب وہ اپنے شیطانوں کے پاس خَلوت میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: درحقیقت ہم تمہارے ساتھ ہیں، مسلمانوں کا تو ہم صرف مذاق اڑاتے ہیں، (البقرہ: 14)‘‘۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’یوسف نے کہا: میں نے یہ اس لیے کہا تھا کہ وہ (عزیزِمصر) جان لے کہ میں نے اُس کے پسِ پشت (اس کی بیوی سے متعلق) کوئی خیانت نہیں کی اور یہ کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کی چالوں کو کامیاب ہونے نہیں دیتا، (یوسف: 52)‘‘، عربی کا مقولہ ہے: ’’تمہارا بہترین دوست وہ ہے جو پسِ پشت تمہارے لیے مخلص ہو‘‘۔ یہ اہلِ ایمان کی مدح ہے کہ اُن کا ظاہر باطن کے موافق ہوتا ہے اور منافقوں کا باطن اُن کے ظاہر کے برعکس ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہ اپنے مونہوں سے وہ بات کہتے ہیں جو اُن کے دل میں نہیں ہوتی، (آل عمران: 167)‘‘۔ جمہور مفسرین کا قول یہ ہے: ’’غیب وہ ہوتا ہے جس کا حواسّ سے ادراک نہ کیا جاسکے‘‘، پھر اس غیب کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور دوسرا وہ جس پر دلیل ہے، یہ آیت متقین کی مدح میں ہے: ’’وہ دونوں قسم کے غیب پر ایمان لاتے ہیں، یعنی اس غیب پر بھی ایمان لاتے ہیں جس کے بارے میں تفکر کریں اور دلیل سے اس پر ایمان لائیں، اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، آخرت، نبوت، احکامِ شرائع کا علم ہے، (تفسیر کبیر، (البقرہ: 3-4)‘‘۔
صحابۂ کرام اپنے ایمان کا خود جائزہ لیتے رہتے تھے، وہ نہ صرف قول وفعل کی مطابقت میں اعلیٰ معیار پر تھے، بلکہ وہ اپنی قلبی کیفیات اور ذہن میں وارد ہونے والے خیالات کے بارے میں بھی سوچتے رہتے تھے کہ کمالِ ایمان یہ ہے کہ قول وفعل میں بھی مطابقت ہو اور ظاہر وباطن میں بھی یکسانیت ہو، ایسا نہ ہو کہ ظاہر تو شریعت کے مطابق ہو، لیکن دل ودماغ شیطانی افکار وخیالات کی آماجگاہ بن جائیں، اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے:
سیدنا حنظلہؓ بیان کرتے ہیں: ’’ہم رسول اللہؐ کی مجلس میں موجود تھے، آپؐ نے ہمارے سامنے جنت اور جہنم کا ذکر کیا، یہاں تک کہ ہمیں ایسا لگا جیسے جنت وجہنم ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، وہاں سے میں اٹھ کر اپنی بیوی بچوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ دل لگی میں مشغول ہوگیا۔ وہ بیان کرتے ہیں: (اچانک) مجھے اُس کیفیت کا خیال آیا جو رسول اللہؐ کی مجلس میں مجھ پر طاری تھی۔ میں (فوراً) نکلا اور سیدنا ابوبکرؓ سے ملا اور اُن سے تکرار کے ساتھ کہا: میں تو منافق ہوگیا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے میرے اس اضطراب کو جان کر کہا: اس کیفیت میں تو ہم بھی مبتلا ہوجاتے ہیں، پھرحنظلہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی پریشانی بیان کی، آپؐ نے فرمایا: اے حنظلہ! قلبی حضوری کی وہ کیفیت جو تمہیں میری مجلس میں نصیب ہوتی ہے، اگر مسلسل رہے، تو تمہارے بستروں پر اور تمہاری راہوں میں آکر فرشتے تم سے مصافحہ کریں، اے حنظلہ! ایسی پُرنور کیفیات ہر وقت نہیں رہتیں، (ابن ماجہ)‘‘۔
امام المتکلمین علامہ حافظ محمد ایوب دہلویؒ لکھتے ہیں: ’’یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْب‘‘ کے معنی ہیں: ’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کَمَا یُؤْمِنُوْنَ بِالشَّھَادَۃِ‘‘، یعنی متقی لوگ غیبی امور پر اُسی قطعیت اور یقین کے ساتھ ایمان لاتے ہیں، جیسے حاضر اشیاء اور حقیقتوں پر اُن کا یقین ہوتا ہے، جبکہ عام لوگوں کی کیفیت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی شخص لوہے کے گرم توے پر ہاتھ نہیں رکھے گا، شعلوں کی صورت میں جلتی ہوئی آگ میں ہاتھ نہیں ڈالے گا، زہریلے سانپ اور بپھرے ہوئے شیر کے قریب نہیں جائے گا، کیونکہ اُسے ان کی ضرر رسانی کا کامل یقین ہے، اُسے پتا ہے آگ جلا ڈالے گی، سانپ کاٹے گا، شیر چیر پھاڑ ے گا، لیکن وہ حرام امور جو جہنم کی آگ میں جھونکے جانے کا سبب ہیں، جیسے: قتلِ ناحق، زنا، شراب نوشی، سود خوری، چوری، ڈاکا زنی، اکلِ حرام اور اس جیسے تمام محرّمات جو قرآن اور حدیث کی رو سے اپنے مرتکبین کو نارِ جہنم کا ایندھن بنانے کا سبب بنتے ہیں، اُن پر بھی اگر اسی درجے کا یقین ہو تو کوئی ان قبیح اعمال کے قریب نہ جائے، لیکن لوگ جاتے ہیں، ان کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس میں انہیں ذرّہ بھر بھی تردُّد یا اضطراب نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بے شک جو لوگ ظالمانہ طریقے سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب شعلہ بار آگ میں داخل ہوں گے، (النسآء: 10)‘‘، اسی طرح کی وعیدیںقتلِ ناحق، رِبا اور دیگر محرّمات کے بارے میں آئی ہیں، لیکن کئی لوگوں پر ان کا اثر نہیں ہوتا، کیونکہ انھیں غائب اشیاء پر وہ یقین نہیں ہوتا جو حاضر پر ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس مومنینِ متقین کا ایمان حاضر وموجود سے زیادہ رُسوخ، قطعیت اور یقین کے ساتھ غیبی امور پر ہوتا ہے، اس کی مثال ان احادیث سے ملتی ہے:
’’حارث بن مالک انصاری بیان کرتے ہیں: اُن کا رسول اللہؐ کے پاس گزر ہوا تو آپؐ نے فرمایا: حارث! تم نے کیسے صبح کی، انہوں نے عرض کیا: میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں پکا مؤمن تھا، آپؐ نے فرمایا: ذرا سوچو! تم کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہے، پس تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے، انہوں نے عرض کیا: میں نے دنیا میں دل لگانا چھوڑ دیا ہے، میں اپنی راتوں کو بیدار رکھتا ہوں (یعنی عبادت میں مصروف رہتا ہوں) اور میرا دن پرسکون گزرتا ہے، (میری حضوریِ قلب کا عالَم یہ ہے کہ) گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنے سامنے واضح طور پر دیکھ رہا ہوں اور میں اہلِ جنت کو دیکھ رہا ہوں جو ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور میں اہلِ جہنّم کو دیکھ رہا ہوں کہ اُن کی چیخیں نکل رہی ہیں، آپؐ نے تین بارفرمایا: حارث! تو نے ایمان کی حقیقت کو جان لیا، پس اسے لازم پکڑو، (المعجم الکبیر للطبرانی)‘‘
دوسری روایت میں ہے: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اے حارثہ! تو نے کیسے صبح کی، انہوں نے عرض کیا: ’’میں نے اس حال میں صبح کی کہ میرا ایمان یقینِ کامل کے درجے میں تھا‘‘، آپؐ نے فرمایا: ’’ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تو تمہارے اِس دعوے کی حقیقت کیا ہے‘‘، انہوں نے عرض کیا: ’’میں نے اپنے نفس کو دنیا (کی محبت کے غلبے) سے لاتعلق کرلیا، تو (اب) میرے نزدیک اس دنیا کا پتھر اور سونا، چاندی اور ڈھیلا (بے توقیری میں) برابر ہوگئے ہیں، میں نے اپنی راتیں بیدار رہ کر (اللہ کی عبادت میں) گزاریں اور دن میں (روزہ رکھ کر) اپنے اوقات پیاس میں گزارے، تو اب مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں عرشِ الٰہی کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ رہا ہوں اور میں اہلِ جنت کو (خوش وخرم) ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہوئے اور اہلِ جہنم کو (شدتِ عذاب کے باعث) فریادیں کرتے ہوئے سن رہا ہوں (یعنی غیبی حقائق مجھ پر منکشف ہونے لگے ہیں)، (مجمع الزوائد للہیثمی)‘‘۔
پتھر اور سونا، چاندی اور ڈھیلا کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میں نے سیم وزَر (یعنی مال ودولتِ دنیا) کو اپنا مطلوب ومقصود نہیں بنایا، بلکہ ان کے ساتھ تعلق ضرورت اور حاجت کی حد تک رکھا ہے،
انہیں ضرورت کی حد تک برتا ہے، انہیں نہ اپنے دل میں جگہ دی ہے اور نہ انہیں اپنا معبود بنایا ہے، جیساکہ احادیث مبارکہ میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: درہم ودینار اور زیب وزینت والے ریشمی لباس کا بندہ ہلاک ہوگیا کہ جب اُسے عطا کیا جائے تو راضی ہوتا ہے اور عطا نہ کیا جائے تو راضی نہیں ہوتا، (بخاری)‘‘۔ ’’سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: دنیا میں اس طرح رہو جیسے تم مسافر ہویا سرِ راہ گزرنے والے اور عبداللہ بن عمر کہا کرتے تھے: جب شام ہوجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہوجائے تو شام کا انتظار نہ کرو (یعنی کچھ خبر نہیں کہ فرشتۂ اجل کب آجائے) اور اپنی صحت کے زمانے میں اپنی (ممکنہ) بیماری کے لیے تیار رہو اور اپنی زندگی میں اپنی موت (اور مابعدالموت) کے لیے (کوئی ذخیرۂ عمل) جمع رکھو، (بخاری)‘‘۔ عالی شان مکانات ومحلات میں بیت الخلا اس شان کے بنے ہوتے ہیں کہ دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے، لیکن اُن میں کوئی بھی مستقل قیام نہیں کرتا، ضرورت کی حد تک اُن میں وقت گزارتا ہے، سو دنیا کی ساری نعمتوں اور عیش وعشرت کو یہی درجہ دینا مومن کی شان ہے، میر انیس نے کہا ہے:
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے، وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے، وہ جوانی دیکھی
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ دنیا کو اپنا مطلوب اور محبوب بنانے کی نفی کرتے ہوئے بتاتے ہیں: اس جہانِ فانی کے ساتھ مومن کا تعلق صرف بقدر حاجت ہونا چاہیے: ’’دولتِ دنیا ہاتھ اور جیب میں رکھنی جائز، کسی اچھی نیت سے اس کو جمع کرنا جائز، خبردار! مگر اُسے اپنے قلب پر اس طرح مسلّط کرنا کہ اُس کی محبت دل پر حاوی ہوجائے، ہرگز جائز نہیں ہے۔ اُسے درِ دل پر کھڑا کرنا جائز مگر خانۂ دل میں بسانا اور سجانا ناجائز ہے اور اس میں تیرے لیے کوئی عزت نہیں ہے‘‘۔