اگر حکمران ہی کرپشن کا عنوان بن جائیں۔۔۔

752

دوستو! شکر ادا کریں! پٹرول کسی بھی قیمت میں سہی، دستیاب تو ہے، پہیہ گھوم تو رہا ہے۔ بجلی کے بل دیکھ کر حواس مختل ہوجاتے ہیں، جسم پر چونٹیاں سی رینگنے لگتی ہیں لیکن بجلی آتو رہی ہے، بلب جل تو رہے ہیں۔ پانی ہفتے دس دن میں ایک مرتبہ آتا ہے، ٹینکر ڈلوانے کی عادت پڑ گئی ہے لیکن پینے کو پانی مل تو رہا ہے، غسل خانے میں بالٹی بھر سہی موجود تو ہے۔ گیس کی جلتی ہوئی لکیریں بلند نہ سہی مدھم مدھم، دھیمی دھیمی سہی، گیس آ تو رہی ہے۔ اشیاء صرف مہنگی اور بہت مہنگی ہوگئی ہیں لیکن چولھوں پر دیگچیاں چڑھی ہوئی تو ہیں، ان میں کچھ پک تو رہا ہے، ابل تو رہا ہے۔ رونقیں ماند پڑگئی ہیں لیکن بازار کھلے ہوئے تو ہیں، لوگ آ، جا، تو رہے ہیں، فکر مندی سے سہی، سوچ سوچ کے سہی، کچھ خرید تو رہے ہیں، مول تول تو کررہے ہیں، گھر کچھ نہ کچھ لے کرتو جارہے ہیں۔ اسپتالوں میں ڈاکٹرز نہ سہی، ادویات نہ سہی، میڈیکل اسٹاف کم سہی، لیکن اسپتال کھلے ہوئے تو ہیں، شفا کی کچھ امید تو ہے۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی سہی، سیوریج کا نظام ناقص سہی، جگہ جگہ ابلتے گٹر، بہتا ہوا گندہ پانی، کچرے کے ڈھیر سہی لیکن زندگی رینگ تو رہی ہے۔ لوٹ مار، چھینا جھپٹی، عام ہے، موٹر سائیکل سواروں کو تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھ کر خون خشک اور چہرہ سفید پڑ جاتا ہے لیکن مو بائل فون دے کر، نقدی دے کر جان بچ تو جاتی ہے، جسم وجاں کی سلامتی کے ساتھ گھروں کو لوٹ تو آتے ہیں۔ عدالتوں میں غریب ذلیل ہورہے ہیں، کھلے عام رشوت ہے، انصاف قبر کے مردے کی طرح اکیلے پن کا شکار ہے لیکن عدالتیں، کھلی ہوئی تو ہیں۔ جج کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تو ہیں، وکیل چل پھر تو رہے ہیں۔ تھانوں میں سپاہی ڈیوٹی تو دے رہا ہے، ایف آئی آر کٹ تو رہی ہیں، تفتیش ہوتو رہی ہے۔ خزاں دنوں، منحوس راتوں میں وطن عزیز، ہانپتا کانپتا، لاٹھی ٹیکتا آہستہ آہستہ گھسٹ تو رہا ہے۔ سخت دھوپ میں ملک سوکھے پتوں کا ڈھیربنتا جارہا ہے صد شکر ابھی تک اس ڈھیر کو آگ تو نہیں لگی۔ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت سے کچھ تو بچا ہوا ہے۔۔۔ کچھ تو بچا ہوا ہے۔۔۔ مملکت خداداد پاکستان نصف ہی سہی نقشے پر موجود تو ہے۔
خاموش مجاہد اور فاتح میں درج قصے پڑھ کر سر فخر سے بلند ہوجاتا تھا، کوئی تو ہے جو ڈالروں سے بھرے بیگوں کو ٹھوکر مارنے کی ہمت رکھتا تھا، کوئی تو تھا جسے احساس تھا کہ وردی قوم سے عہد وفا اور عہدہ ایک امانت ہے۔ کوئی تو تھا اقتدار کی عظمتوں کو چھونے کے باوجود جس کے آٹے کا کنستر خالی تھا۔ مرحوم جنرل اختر سے ایک فقرہ منسوب ہے ’’کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اسے اپنی فوج کے خلاف کردو‘‘ اور اگر خود فوجی قائدین ہی قوم کے خلاف ہوجائیں، جہاد کو مال آفرینی کا ذریعہ بنادیں تب قوم تباہی سے بچنے کے لیے کس سے پناہ مانگے، کس کی امان میں جائے؟؟ سوئس لیکس نے بہت کچھ بے اعتبار کردیا ہے۔
تحقیقاتی صحافیوں کی عالمی تنظیم او سی سی آر پی نے سوئس بینکوں میں رکھے گئے 100ارب ڈالر کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین جنرل (ر) زاہد علی اکبر کا نام بھی شام ہے جو واپڈا کے چیئرمین بھی تھے۔ وہ پاک فوج کی انجینئرنگ کور کا حصہ تھے۔ انہوں نے پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام میں بھی حصہ لیا۔ 2013ء میں انہیں بوسنیا کے باڈر پر انٹرپول نے گرفتار کیا تھا۔ زاہد علی اکبر اپنے 77بینک اکائونٹس میں موجود رقم کا حساب دینے سے قاصر تھے 2004ء سے 2006ء تک ان کے ایک آپریشنل بینک اکائونٹ میں دو ارب 96کروڑ پاکستانی روپوں کے مساوی رقم موجود تھی۔ پاکستان کے انٹیلی جنس چیف اختر عبدالرحمن کے حوالے سے لیکس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے افغان جہاد کے لیے امریکا کی جانب سے دیے گئے فنڈز کو اپنی جیب میں ڈالا۔ ان کے صاحبزادوں اکبر، غازی اور ہارون کے نام پر یکم جولائی 1985ء کو ایک مشترکہ اکائونٹ کھولا گیا جس میں 2003ء تک 3.7ملین امریکی ڈالرز موجود تھے۔ 1986ء میں اکبر کے نام پر کھولے گئے اکائونٹ میں نومبر 2010 تک 9.2ملین ڈالر کی رقم موجود تھی۔ ہارون اختر نے کہا ہے کہ وہ مشاورت کے بعد قانونی کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔ کاش، اے کاش وہ اپنے قول پر عمل کرکے ایک مثال قائم کرسکیں ورنہ اس ملک میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔
حیرت ہوتی تھی کہ جس ملک میں اتنا پوٹینشل موجود ہے وہ دنیا سے اتنا پیچھے کیوں ہے۔ ہمارا ہی ایک حصہ جو بدحالی کی علامت تھا، غربت اور تنگدستی ہر وقت جہاں وسائل سے سر بہ گریباں رہتی تھی، جس کے علٰیحدہ ہونے پر بھٹو نے کہا تھا ’’شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ آج ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔ پچاس برس ہونے کو آرہے ہیں ان بھوکے ننگے کالے، چھوٹے بنگالیوں کے بارے میں کسی نے یہ نہ کہا کہ بنگلا دیشی ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بیچ دیتے ہیں، کسی نے ان کی فوج کو روگ آرمی کا لقب نہیں دیا، کسی نے ان کے جرنیلوں کو کرپٹ نہیں کہا پھر ہم کیوں دنیا بھر میں رسوا ہیں، کیوں گرین پاسپورٹ کو دیکھتے ہی تحقیق کے لیے الگ رکھ دیا جاتا ہے۔ کیوں افغان جہاد میں سوویت یونین کی بربادی کے باوجود پاکستان کے کردار کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ کیوں کام نکلتے ہی دنیا ہم سے منہ پھیر لیتی ہے۔ کیوں ہمیں کرائے کی فوج باور کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ لکھتے ہوئے دل دکھی ہے کیونکہ آج بھی پاکستانی جیسی دلیر فوج دنیا میں نہیں، آج بھی بھارتی پاکستانی فوج کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں، یہ پاکستانی جانباز ہی ہیں جو زلزلہ ہو، طوفان ہو، بارشیں ہوں، سیلاب ہوں قوم کی آخری امید ہیں، راہ حق کے وہ شہید ہیں کہ راہیں بھی جگمگا اٹھتی ہیں، ان کی معطر قبریں گواہ ہیں کہ بجز شہادت ہماری بہادر افواج کی اور کوئی منزل نہیں لیکن یہ چند جرنیل۔۔۔ لیکن یہ چند جرنیل۔۔ لیکن یہ چندجرنیل۔۔ جو بائیس کروڑ عوام پر بھاری ہیں، وطن عزیز کی عزت وآبرو پر بھاری ہیں۔۔۔
فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان سے پہلے رشوت کے لیے ’’ڈالی‘‘ جیسا موہنا سا لفظ بولا جاتا تھا۔ صاحب لوگوں کے سامنے پھل پھول مٹھائی کی ڈالیاں لگانا پڑتی تھیں اور بس۔ جنرل صاحب کے بڑے صاحبزادے گوہر ایوب نے گندھارا اندسٹریز آغاز کر کے آگاہ کیا کہ کرپشن کسے کہتے ہیں۔ جنرل یحییٰ کو کرپشن تو کیا بجز مے اور نشاط کسی چیز کی فرصت نہ تھی۔ کتے کے پلّوںکو جنرل پرویز مشرف کا تعارف کراتے دیکھا تو ذہن میں سرطان کی لکیر چلنی شروع ہوگئی تھی۔ ان کے بینک اکائونٹس میں لاکھوں ڈالرز کی موجودگی کی بات سے کچھ حیرت نہیں ہوئی۔ جنرل کیانی کے حوالے سے سینہ بہ سینہ چلتا جزیروںکا انکشاف ہوا، حال ہی میں پاپا جونز نے عزت کے بہت سے پلوں کو عبور کرلیا لیکن زیادہ جھٹکے نہیں لگے۔ حیرت جنرل ضیا الحق پر ہوتی ہے جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیںتھا۔ وہ نمازی پر ہیز گار شخص تھے لیکن اس کے باوجود ان کے دور میں کرپشن کے ریٹ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ وہ کرپشن کو پاکستانی سماج کا حصہ سمجھتے تھے اور کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی سے احتراز کرتے تھے۔ سوئس لیکس میں جن جرنیلوں کے نام ہیں وہ سب جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔
سوئس لیکس نے ایک مرتبہ پھر واضح کردیا کہ اس ملک میں ہر شخص کیوں کرپشن کرنے پر تلا ہوا ہے کیونکہ کرپشن، بدعنوانی، ہر نیکی، ہر بدی اوپر سے نیچے آتی ہے۔ جیسے حکمران ہوتے ہیں ویسے ہی عوام ہوتے ہیں۔ برف سب سے زیادہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑتی ہے۔ مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ سیدنا عمر ؓ کی سلطنت کے دور دراز حصے میں ایک چرواہا دوڑتا ہوا آبادی کی طرف آیا اور چیخا لوگو! خلیفہ کا انتقال ہوگیا۔ حیرت سے پو چھا گیا ’’تمہیں کیسے پتا چلا‘‘بولا ’’میری بھیڑیں بے خوف جنگل میں پھرتی تھیں۔ کسی بھیڑیے کو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی لیکن آج میری ایک بھیڑ کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا‘‘۔ یہ عادل حکمران ہوتے ہیں جو ظلم کی، کرپشن کی، بدعنوانی کی ہر صورت کے سامنے دیوار بن جاتے ہیں تب معاشرے بھی ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ اگر حکمران ہی کرپشن کا عنوان بن جائیں تو پھر وہ ہوتا ہے جو پاکستان میں ہورہا ہے۔