تحریک عدم اعتماد یا اسمبلیوں کی تحلیل

338

 

تحریک انصاف کی حکومت نے غریب متوسطہ طبقے کی مہنگائی بے روزگاری کے ہاتھوں چیخیں نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ساتھ ہی ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کے بجائے آج ہم مزید مقروض ہوگئے ہیں، لوٹی دولت واپس لانے کے بجائے لوٹنے والوں کو ملک سے فرار کرادیا گیا، مکان روزگار دینے کے دعوے دفن ہوچکے ہیں۔ حکومت کے خلاف ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لانے جارہی ہے جس کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کیا ہوگا یہ ہم وقت کے سپرد کرتے ہوئے دوسری جانب چلتے ہیں مان لیجیے کہ اپوزیشن وزیر اعظم کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کیا ملک کا نظام درست سمت پر گامزن ہوجائے گا؟ کیا مہنگائی سمیت غریب عوام کے تمام تر بنیادی حقوق بحال ہوجائیں گے؟ کیا ہم ترقی وخوشحالی کی سمت پر چل پڑیں گے؟ کیا ملک میں شفاف، غیر جانبدار، دھاندلی سے پاک الیکشن ہوسکیں گے؟ کیا عدم اعتماد کی اس تحریک سے شفاف انصاف کی شمع روشن ہوجائے گی، کیا کرپشن اور کرپٹ عناصر کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا؟ یقینا عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا البتہ ایک نااہل ناکام حکومت کی جگہ دوسری نااہل نالائق کرپٹ حکومت کا یقینا آغاذ ہوجائے گا۔
اب یہ دیکھیں کہ یہ تحریک کب پیش ہوتی ہے اور کیا یہ تحریک پیش ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوجاتی ہے یا پھر اس تحریک کے پیش آنے کی نوبت ہی نہ آئے کیوں کہ وزیر اعظم بھی اس تحریک کے غبارے سے ہوا نکالنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں اور ساتھ ہی ایک آئینی آپشن جس کی جانب شاید ابھی تک دوسری جانب سے نہیں سوچا گیا اگر اپوزیشن کے دعوے درست دکھائی دیے کے عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے تحریک انصاف کے کچھ اراکین ان کے ساتھ ہیں اور اس بات کا وزیر اعظم کو بھی یقین ہوجائے تو شاید وزیر اعظم اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو یقینا اپوزیشن اس کو اپنی کامیابی سمجھے گی اور یہ آپشن یقینا ن لیگ کو تو سوٹ کرتا ہے مگر پیپلزپارٹی شاید اس آپشن کو فیس نہ کر سکے اور تحریک انصاف سیاسی شہید کا سلوگن لیے نئے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہوجائے گی جس میں تحریک انصاف کی کامیابی کی کوئی خاص اُمید دکھائی نہیں دے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں تو پھر سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا کیا ملک میں صدارتی نظام نافذ ہوجائے گا یا پھر ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا اور پھر نگراں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے قیام کا طریقہ کار کیا ہوگا یقینا یہ تمام تر حالات ملک کے لیے کوئی آئیڈیل نہیں ہوں گے جس کے اثرات پاکستان کے خارجی معاملات پر بھی پڑیں گے۔ یعنی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا اسمبلیوں کی تحلیل سمیت ہم کسی بھی جانب بڑھے تو یقینا وطن عزیز کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور یقینا عدم اعتماد کی کامیابی سے بنے والی نئی حکومت اس ملک و قوم کو مزید مسائل میں دھکیل دے گی جس کا اندازہ شاید ابھی کسی کو نہیں۔
یقینا اس ملک کو چالیس سال سے نقصان پہنچانے والوں اور موجودہ ساڑھے تین سال سے اس نقصان میں مزید اضافہ کرنے والی خان صاحب کی حکومت ہر صورت ناکام رہی ہے کیوں کہ جب سیاست کو عبادت خدمت سمجھ کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر روند دیا جاتا ہے اور جب سیاست کو ذاتی مفادات اور اپنی انا کا مسئلہ سمجھ لیا جاتا ہے تو ملک کا نظام دائو پر لگ جاتا ہے جو ملک اور اس کے اداروں کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے تحریک عدم اعتماد ہو یا اسمبلیوں کی تحلیل کا آپشن وقت سے پہلے یہ دونوں ہی نقصان کا سبب ہوں گے جس سے غریب متوسطہ عوام کو یقینا کوئی ریلیف نہیں مل سکے گا عدم اعتماد کی کامیابی اسمبلیوں کی تحلیل سے مہنگائی بے روزگاری علاج تعلیم انصاف غریب کو کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا تو پھر دونوں آپشن کا فائدہ کیا۔ چند ماہ بعد الیکشن کا سال شروع ہوجائے گا جو حکومت اور اپوزیشن کی کار کردگی کا سال سمجھا جاتا ہے دونوں فریقوں کے لیے کھلا میدان ہوگا کہ وہ عوام کو اپنی کار کردگی سے اپنی جانب مائل کر سکیں ساتھ ہی اگر اپوزیشن جمہوری طریقے سے اقتدار کی کرسی تک پہنچنا چاہتی ہے تو الیکشن اصلاحات کی جانب توجہ دے تاکہ ملک میں صاف شفاف، غیر جانبدار، دھاندلی اور سہولت کاری سے پاک انتخابات ہوسکیں جب ہی ملک و قوم ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن ہوسکیں گے عدم اعتماد کی تحریک یا اسمبلیوں کی تحلیل ملک و قوم کے مسائل کا حل نہیں۔