…!!!کیا پاکستان امریکی بلاک سے نکل چکا

518

وزیراعظم پاکستان بار بار کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔ ہم روس سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ یوکرین تنازع کے پرامن حل کے خواہاں ہیں۔ جنگ سے کچھ نہیں ملتا۔ وزیراعظم نے روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے امریکا کا طویل عرصے ساتھ دیا اور بڑا نقصان اٹھایا ہے لیکن اب ہم کسی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ وزیراعظم کا روس کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب روس اور یوکرین جنگ کی کیفیت میں ہیں۔ یوکرین نے پاکستان سے مدد مانگی ہے اور وزیراعظم یوکرین کی مدد کس طرح کریں گے اس کا اندازہ ان کے دورے کے نتائج سے ہوجائے گا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بار بار یہ اعلان کرنا بھی کسی تبدیلی کی اطلاع دے رہا ہے کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا اور پھر امریکی بلاک کا حصہ بننے کے نقصانات کا ذکر… پاکستانی حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بہت کوتاہ بین ہوتے ہیں۔ چند ماہ آگے تک کے حالات سمجھنا بھی ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ جب پاکستان امریکی بلاک میں یا امریکی جال میں جارہا تھا تو اس وقت کے حکمران جنرل پرویز کو بار بار سمجھایا گیا تھا کہ ملک کو امریکا کی جھولی میں ڈالنا مستقبل میں نہایت خوفناک نتائج لائے گا۔ لیکن جنرل صاحب سب سے پہلے پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ لڑنے پر آمادہ تھے۔ یہ عجیب جنگ تھی اس کی وجہ سے پاکستانی حکومت نے اپنے ملک کے محب وطن قبائلیوں کے خلاف کئی آپریشن کیے۔ ان آپریشنوں کی سالگرہ منائی جاتی ہے لیکن اس سے حاصل کیا ہوا یہ نہیں بتایا جاسکا۔ بڑے فخر سے بتایا گیا کہ پانچ لاکھ کارروائیاں کی گئیں، اگر ان کارروائیوں میں ایک دہشت گرد بھی مارا ہوتا تو پانچ لاکھ دہشت گرد مرے ہوتے۔ لیکن اتنے تو نہیں مرے۔ اگر فی کارروائی آدھا دہشت گرد بھی مرا ہوتا تو ڈھائی لاکھ ہوتے۔ علیٰ ھذا القیاس۔ اتنی کارروائیوں میں کچھ نہیں ملا سوائے فوج کے خلاف جذبات کے پروان چڑھانے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ یہ امریکی بلاک میں جانے کا نقصان تھا۔ اس بلاک میں جانے اور امریکی جنگ اپنے سر لینے سے توبہ سول، عسکری دونوں قیادتوں نے بار بار کی۔ پارلیمان نے قرار داد منظور کی۔ لیکن کیا ایسا ہوگیا ہے؟
ابھی تو اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ کیا پاکستان امریکی بلاک سے نکل گیا ہے۔ نکلنا چاہتا ہے تو کیا نکل پائے گا۔ بڑی طاقتوں کے بلاکوں میں امداد اور پیسے کے ذریعے شامل ہونے کے نتائج بڑے سنگین ہوتے ہیں۔ ہمارے خیال میں پاکستان کو ابھی امریکی بلاک سے نکلنے کے لیے بڑی قیمت اور طاقت کی ضرورت ہے اور کمزور، بے دم، اور بے ہمت حکومت میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ کسی حصار سے نکل جائے۔ یوں کہا جائے کہ ابھی تک پاکستانی حکومت امریکی بلاک سے اپنی ہاون نال ہی الگ نہیں کرسکی ہے تو الگ اور آزاد حیثیت میں فیصلے کیا معنی رکھتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے انٹرویوز اور بیانات سے اتنا ضرور ہوتا ہے کہ امریکا میں پاکستان کے خلاف
جذبات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ امریکا گزشتہ 5 برس میں تین مسائل کا شکار ہوا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔ اس سے بڑا آسمان یہ ٹوٹا کہ امریکا نے طالبان سے شکست تسلیم کی اور 20 برس طالبان سے جنگ کرکے کھربوں ڈالر استعمال کرکے طالبان کو اقتدار دے دیا۔ اور تیسری مشکل اب جوبائیڈن کے کمزور اقتدار کی وجہ سے امریکا کو درپیش ہے۔ اور یہی پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ فوری طور پر کوئی بڑا اقدام نہیں ہورہا۔ لیکن جب ملک کو ہر طرح گروی رکھا جاچکا امریکا کو پاکستان میں ہر طرح کا اثر رسوخ دے دیا گیا تو اس سے جان چھڑانا اتنا آسان تو نہیں ہوگا کہ آج کہا کہ ہم آزادانہ فیصلے کریں گے اور کل سے آزادانہ فیصلے ہونے لگیں گے۔ اب ذرا روس کے دورے کا جائزہ لے لیں پاکستانی وزیراعظم روس سے تجارت، معیشت اور دیگر معاملات میں تعاون بھی چاہتے ہیں۔ لیکن کیا وہ جانتے ہیں کہ ان بڑی طاقتوں سے تعاون حاصل کرنے کی قیمت بھی ہوتی ہے۔ وہ قیمت کون دے گا۔ عمران خان تو آج گئے کہ کل۔ ملک اور عوام تو یہیں ہیں۔ اگلا آنے والا بھی وہی بیان دے رہا ہوگا کہ سابقہ حکومتوں نے ملک تباہ کردیا تھا۔ اب بھی ایک سال کے اندر اگر حکومت قومی صنعتوں، زراعت، افرادی قوت، چھوٹی صنعتوں اور تاجروں اور صنعت کاروں پر سرمایہ کاری کرے، اپنے ملک کے اداروں کو مضبوط کرے اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا کام کرے تو ایک سال بھی بہت ہے، پھر پاکستانی حکمران روس، امریکا، چین وغیرہ سب سے اپنی شرائط پر تعلقات اور تعاون کے معاہدے کرسکتے ہیں۔ ابھی تو یہ نہیں پتا کہ پاکستان چینی بلاک میں ہے یا امریکی۔ اس پر مودی سے کشمیر پر مناظرے کی باتیں کرنا کیا! بیچنا ہے۔ کیا مودی اور بھارت نے مناظروں کے زور پر کشمیر پر قبضہ کیا ہے۔ اور کیا طالبان نے مناظرے کرکے امریکا کو باہر نکالا۔ ظاہر ہے یہ سارے کام جنگ ہی سے ہوئے ہیں اور ہمارے وزیراعظم یہ منطق لائے ہیں کہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جہاں جنگ کرنا ہے وہاں جنگ کی جائے جہاں مناظرہ کرنا ہے وہاں مناظرہ کریں۔ عموماً حکمران اپنے عوام سے مناظرہ اور دشمن سے جنگ کرتے ہیں لیکن ہمارے حکمران اپنے عوام سے جنگ اور دشمنوں سے مناظرہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم کا کسی بلاک میں نہ جانے کا اعلان تو خوش آئند ہے لیکن تیز بہائو والے سمندر اور سیلاب میں تنکوں اور کاغذ کی نائو کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ وہ اس بہائو اور لہروں کے زور پر بہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وزیراعظم اپنے دعوئوں کی صداقت میں روس سے افغان حکومت تسلیم کروالیں، چین سے اتنے زبردست معاہدے ہیں تو ان کو بھی افغانستان کی حکومت تسلیم کروانے پر مجبور کریں۔ اگر وہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان امریکی بلاک سے الگ ہوسکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ، سیاستدان، حکمرانوں، سابق جرنیلوں اور اعلیٰ فوجیوں کا سب کچھ امریکا میں ہے۔ بچے وہاں پڑھتے ہیں، کاروبار وہاں ہے، سرکاری دورے وغیرہ سارے اللے تللے امریکا کے بل پر ہیں۔ روس میں کسی کا کیا دھرا ہے جن لوگوں کا سب کچھ امریکا و برطانیہ میں ہو وہ امریکی بلاک سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے بلکہ ایسی کوشش کو ناکام بنادیں گے۔