نیاحکم نامہ

810

پطرس بخاری سے کسی سیاست دان نے پوچھا ’’میں اپنی قبر کے کتبے پر کیا لکھوائوں؟‘‘ پطرس نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’یہ لکھوا دیں کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘۔ جھوٹی خبروں پر پابندی کے بل ’’پیکا‘‘ سے حکومت بھی یہی اہتمام کرنا چاہتی ہے۔ پیکا کے تحت جھوٹی خبریں پھیلانے پر پانچ سال قید سزا ہوگی اور ضمانت کا بھی کوئی چانس نہیں ہوگا۔ اس قانون سازی میں ابھی بہت سی گنجائشیں باقی ہیں۔ جھوٹی خبروں کے ساتھ ساتھ اس طرح کے لطیفے گھڑنے والوں کو بھی اس حکم کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے۔ ’’رمضان کے دن تھے۔ وزیراعظم عمران خان ایک سموسے والے کی دکان پر گئے اور سموسہ اٹھا کر چکھنے لگے۔ دکاندار نے کہا ’’وزیراعظم صاب مغرب کا انتظار تو کرلیں‘‘ عمران خان نے کہا ’’اوئے اس پر کیچپ ڈال مغرب کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے‘‘۔ ایک تجویز یہ آئی ہے کہ جھوٹی خبروں کے ساتھ ساتھ جھوٹے وعدوں پر بھی تعزیر کا بل بھی آنا چاہیے۔ اگر اس تجویز کا تعلق وزیراعظم عمران خان کی ذات سے ہے تو یہ غلط ہے۔ کیا کسی مرغے کو اذان دینے کے بعد آپ نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ حکومت سے تب ہی انجوائے کیا جاسکتا ہے جب وعدوں کو ’’واک‘‘ پر کہیں دور بھیج دیا جائے۔ یوسفی صاحب فرماتے ہیں ’’ایک دن ہم فیض صاحب سے ملنے گئے تو کہنے لگے معاف کیجیے گا میں ذرا ہائیڈ پارک ٹہلنے جارہا ہوں۔ اتنی دیر میں ایک خاتون آگئیں۔ فیض صاحب انہیں لے کر بیٹھے تو ہم سے کہا ’’آپ ذرا ہائیڈ پارک تک ہو آئیں‘‘۔
وعدے اقتدار ملنے تک ہوتے ہیں۔ اقتدار مل جائے تو پھر وعدے کسے یاد رہتے ہیں۔ اقتدار کے ساتھ حکمران کا حال عید پر قربانی کرنے والے اس شخص جیسا ہوجاتا ہے دنبے پر نظر پڑتے ہی جو سوچتا ہے: مغز اور گردوں کی تو کٹا کٹ بنوائوں گا۔ نرم نرم گوشت کے تکے اور سری پائے کی یخنی بنوائوں گا۔ اون گرم شال بنانے کے لیے موزوں رہے گی اور کھال سے چمڑے کی جیکٹ بنوائوں تو کیسی رہے گی۔۔۔ دنبے کی ’’میں میں۔۔ میں میں‘‘ کو بھی حکمران اپنے گلے میں اس طرح فٹ کروالیتے ہیں کہ ان کے منہ سے بھی میں میں کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ہر طرف، ہر چیز میں انہیں اپنی ذات ہی جلوہ فرما نظر آتی ہے۔ اپنے آپ کو یہ حکمران تقدیس کے اس درجے پر فائز کردیتے ہیں کہ اپنی جناب میں سچی خبریں اور سچ بھی انہیں گستاخی فرشتہ محسوس ہوتی ہے۔ پھر جرنلسٹ ہوں، جج ہوں، اپوزیشن ہو وہ سب کو فکس اپ کرنے کے چکر میں پڑجاتے ہیں۔ جاوید اختر نے حکمرانوں کے اس جنون کی اپنی ایک نظم ’’نیا حکم نامہ‘‘ میںکیا ہی عمدہ ترجمانی کی ہے:
کسی کا حکم ہے۔۔۔ ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں۔۔۔ کہ ان کی سمت کیا ہے؟۔۔۔ ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا۔۔۔ چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی؟۔۔۔ کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے۔۔۔ ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں۔۔۔ یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں۔۔۔ حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری۔۔۔ اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن۔۔۔ یہ سب ہی جانتے ہیں۔۔۔ کسی کا حکم ہے۔۔۔ دریا کی لہریں ذرا یہ سرکشی کم کرلیں۔۔۔ اپنی حد میں ٹھیریں۔۔۔ اُبھرنا پھر بکھرنا اور اُبھر کر پھر بکھرنا۔۔۔ غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا۔۔۔ یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت۔۔۔ بغاوت کی علامت۔۔۔ بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی۔۔۔ یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی۔۔۔ اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا۔۔۔ تو ان کو ہوگا اب چُپ چاپ بہنا۔۔۔ کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے۔۔۔ ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں۔۔۔ ہوائیں حاکموں کی مُٹھیوں میں، ہتھکڑی میں۔۔۔ قید خانوں میں نہیں رکتیں۔۔۔ یہ لہریں روکی جاتی ہیں۔۔۔ تو دریا کتنا بھی ہو پر سکوں، بے تاب ہوتا ہے۔۔۔ اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے۔۔۔ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے!
وزیراعظم عمران خان کی حساسیت مراد سعید اور ان کے تعلق پر ریحام خان کی کتاب کے ذکر سے شروع ہوئی۔ غیرت کا ایسا مظاہرہ تو بیویوں اور محبوبائوں کے حوالے سے بھی آج کل کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ پہلے لوگ حکومت کے احتساب کے ڈر سے بے نیاز ہوکر دیواروں پر اپنے خیالات واحسات کی ایسی ترجمانی کرتے تھے جیسی ریحام خان نے اپنی کتاب میں کی ہے۔ دیواروں پر لکھی ایسی تحریروں پر لوگ پان کی پیک تھو کتے گزر جایا کرتے تھے۔ حکومت کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا لیکن وہ ’’پیک ا‘‘ بازی پر اُتر آئی۔ پیکا ترامیم کے بعد بھی یہ وضاحت سامنے نہیں آئی کہ مرادسعید کے نام پر جو کمینی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر آجاتی ہے کیا اس پر بھی پانچ برس قید کی سزا ہوگی۔
ریحام خان کی کتاب ہم نے نہیں پڑھی۔ ہم عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ایسی کتابیں لحافوں میں گھس کر نہیں بچوں سے چھپ کر پڑھی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کتاب میں کہیں انہوں نے لکھا ہے کہ ایک صبح میں نہادھو کر تیار ہوکر خان صاحب کے پاس آئی تو بولے ’’آج تو تم شیخ رشید لگ رہی ہو‘‘۔ یہ ایک پریشان کن جملہ ہے۔ عمران خان نے ریحام خان اور شیخ رشید دونوں کو ایک ہی فقرے میں جس طرح باندھا ہے اس کے بعد پتا نہیں سابقہ خاتون اول کے لیے یہ شرم کی بات تھی یا شیخ رشید کے لیے فخر کی؟ ٹک ٹاکر حریم شاہ جس اندازسے شیخ رشید کو ہلکا لیتی ہے اسے دیکھ کر ہمیں بارہا خیال آیا کہ صرف معیشت ہی کا نہیں شیخ رشید کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ دونوں ہی کو مقوی غذائوں کی ضرورت ہے۔
محسن بیگ پر ایف آئی اے کا چھاپا حکومت کے حق میں ایسا ہی ثابت ہوا ہے جیسے کوئی شوہر بیوی بچوں کو جائداد سونپنے کے لیے وراثت نامہ لکھوانے کے بجائے خودکشی کا ارتکاب کرلے۔ سیشن جج صاحب نے جیسے ایک نظر میں اسے غیرقانونی قراردے کر رد کردیا تھا حکومت کو محتاط ہوجانا چاہیے تھا لیکن حکومت جج صاحب ہی پر مقدمہ کرنے پر اُتر آئی۔ بہتر تھا عمران خان کو اقتدار حوالے کرتے ہوئے جب ان سے حلف لیا جارہا تھا یہ بھی پوچھ لیا جاتا کہ ’’عمران خان کیا تم بلوغت کی اس عمر تک پہنچ چکے ہو کہ ایک حکومت کا بوجھ اٹھا سکو؟‘‘
ایف آئی اے کے چھاپے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محترم اطہر من اللہ نے جو سوالات اٹھائے وہ بہت اہم ہیں۔۔۔ ایف آئی اے نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کیس بنایا ہے۔ کیا ایف آئی اے نے وفاقی وزیر کی شکایت پر کوئی نوٹس جاری کیا؟ کیا ایف آئی اے کے اہلکار قانون سے بالاتر ہیں؟ یہ عام شکایت ہوتی جب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی۔ ایف آئی اے کا کام کسی کی ذاتی ساکھ کی حفاظت کرنا نہیں۔ کیا ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟۔۔۔ پبلک آفس ہولڈر کو تنقید سے گھبرانا نہیں چا ہیے۔۔۔ 14ہزار سے زائد شکایات زیرالتوا ہیں کیا آپ نے تمام شکایات پر گرفتاریاں کی ہیں؟ ٹی وی شو میں کتنے لوگ تھے؟ کیا آپ نے باقیوں کو گرفتار کیا؟ ان سوالات کے آئینے میں دیکھیے کہ ایک صحافی کے گھر پر چھاپا اور اس کی گرفتاری کس طرح حکومت کے لیے ذلت اور پریشانی کا باعث بنی ہے جب حکومت پیکا ترمیمی آرڈی ننس پر عمل کرے گی تو اس کے لیے کیا کیا رسوائی کا بازار گرم ہوگا؟ لیکن حکومت کا نشہ یہ سب کچھ سوچنے کی مہلت کب دیتا ہے۔ رسوائیاں کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہیں لیکن حکومت کو خبر ہی نہیں۔ نشہ اعتدال سے کرنا چاہیے۔
حکومت شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر سنگ باری جاری رکھنا چاہتی ہے۔ وہ جو غیرقانونی کام کررہی ہے، دوسروں پر کیچڑ اچھال رہی ہے یہ آرڈیننس اسے قانونی کور مہیا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بھٹو کی طرح عمران خان بھی سمجھتے ہیں کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے لیکن آج تک کسی کی کرسی اتنی مضبوط ثابت نہیں ہوسکی کہ ظلم اور زیادتیوں کے باوجود بھی برقرارہ سکے۔ ایک سیشن جج کا حکومتی منصوبے کو سبوتاژ کرکے رکھ دینا معمولی بات نہیں ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ حکومت میں رہ کر آپ صرف دوسروں کا گلا نہیں کاٹتے اپنا گلا کاٹنے کا بندوبست بھی بااہتمام کر جاتے ہیں۔ حکومت سے نکلنے کے بعد اس کا پتا چلتا ہے۔