طلبہ یونین۔ جمعیت اور حافظ اسلم

1161

یہ عجیب اتفاق ہے کہ طلبہ یونینوں کی بحالی الیکشن اور ان یونینوں کی اہمیت کا ذکر فروری کے مہینے میں یا اس کے آس پاس ضرور ہوتا ہے اور طلبہ یونین ایک ایسی عنقا شے ہے جس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے اور اس کا فائدہ طلبہ اور تعلیم کو پہنچانے والے اب گنے چنے لوگ رہ گئے ہیں جو لوگ اس کا ذاتی مشاہدہ کرچکے ہیں اور حکومتوں میں ہیں ان کے ہاتھ پائوں سرکاری پالیسیوں اندر کے جھگڑوں اور کچھ ان دیکھے مسائل نے باندھ رکھے ہیں۔ ہم ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے اسکول میں بھی یونین الیکشن کروائے اور اس کے فوائد سے طلبہ اور اسکولوں کو مستفید کیا۔ ایک سرکاری اسکول گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول خالد بن ولید روڈ میں جب ہم 8 ویں جماعت میں پہنچے تو ایک دن 9 ویں جماعت کے کچھ طلبہ کی زبردست پٹائی ہوئی۔ ہماری جماعت کے دو ساتھی ان کے دوست تھے ایک کے گھر کے سامنے طارق عزیز اور منہاج برنا صاحبان رہتے تھے۔ وہ اسکول کے متاثرہ طلبہ کو وہاں لے گیا۔ معاملہ صرف اسکول میں کھیلوں کے لیے چھٹی کا تھا جو تشدد کا رنگ اختیار کرگیا۔ نہایت شفیق اور مہربان استاد محمود ایجاد حسین بھی غصے میں آگئے تھے۔ لیکن ہمارے دوستوں نے جب شکایت پہنچائی تو طارق عزیز دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے ساتھ منہاج برنا کو لے کر اسکول آدھمکے۔ پی پی پی کا بھٹو راج تھا۔ سب دہل گئے۔ لیکن کسی نے اساتذہ سے بدتمیزی نہیں کی۔ بلکہ طویل مباحثہ ہوا اور طلبہ کو بلایا گیا۔ ان کے مطالبات سنے گئے۔ محمود صاحب نے 1973ء میں 36 ہزار چند سو روپے کا پورا حساب پیش کردیا۔ اتنی رقم سے تو بہت کچھ ہوسکتا تھا۔ لیکن سب سے پہلے اسکول میں الیکشن ہوئے۔ تشدد کا شکار ثاقب اعوان، یونین میں منتخب ہوئے اور ہمارے دوست بھی۔ یوں پہلی مرتبہ پتا چلا کہ یونین کیا ہوتی ہے۔ پھر اسکول نے ہاکی، فٹبال، ٹیبل ٹینس، اور ایتھلیٹکس کی ٹیمیں تیار کیں۔ پہلے سال خوب ہارے۔ پھر جیتنا شروع کیا۔ ہفتہ صفائی کلاسوں کی دیکھ بھال، اساتذہ کی تکریم، ذاتی نفاست صفائی، وقت کی پابندی، کتابوں کاپیوں کی حفاظت، کتب اور فیس سے محروم طلبہ کی مدد۔ یہ سب کچھ اسکول کی یونین نے سکھایا۔
اس اسکول میں ایک ساتھی اسلامی جمعیت طلبہ کے بھی تھے۔ حافظ محمد اسلم نام تھا۔ وہ چپکے چپکے واردات کررہے تھے۔ ہماری تربیت کی واردات۔ جھوٹ بولنا، فلمیں دیکھنا، نمازوں میں گنڈے، یہ سب ختم۔ دین کا علم کیسے حاصل کرنا ہے۔ وعدے کی پاسداری کیسے کرنی ہے، یہ سب کچھ ایک سال میں سکھا دیا۔ یونین بھول کر ہم اسٹڈی سرکل سے جڑ گئے۔ فروری آتے ہی اگر طلبہ یونین کی بات آئی ہے تو جامعہ کراچی میں یونین، حافظ اسلم اور ان کی شہادت کا واقعہ سب کچھ نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ ہمارے اسکول میں پیپلز پارٹی والوں نے الیکشن کرائے اور جامعہ کراچی میں پیپلز پارٹی والے سلام اللہ عرف ٹیپو کے ہاتھوں حافظ اسلم کی شہادت بھی ہوئی۔ اب یہی پیپلز پارٹی سندھ میں برسراقتدار ہے، طلبہ یونین الیکشن کی قرارداد منظور کرچکی، اسمبلی نے فیصلہ کرلیا، لیکن حکومت الیکشن سے ڈر رہی ہے۔ وہ ہمیشہ سے ڈرتی ہے۔ جب بھٹو دور تھا تو پورے ملک میں 1974ء کے طلبہ یونین الیکشن میں اسلامی جمعیت طلبہ چھا گئی تھی۔ جامعہ پنجاب، کراچی، لاہور، پروفیشنل تعلیمی ادارے انٹر اور گریجویٹ کالجز ہر جگہ جمعیت تھی یا اے ٹی آئی، پی ایس ایف، این ایس ایف کا صفایا ہوگیا تھا۔ جامعہ کراچی میں حافظ اسلم اسی تناظر میں ایک نعرہ لگایا کرتے تھے کہ… ایک بات بتائو… جواب ملتا۔ کیا بھئی کیا۔ وہ کہتے کہ بھئی نہیں بتلاتے۔ جواب ملتا۔ کیوں بھئی کیوں۔ وہ کہتے۔ یہ رو پڑیں گے۔ اور سب مل کر کہتے کہ رونے دو۔ پھر حافظ اسلم کی آواز آتی۔ جمعیت جیتی۔ اور سب مل کر واہ بھئی واہ کہتے۔ یہ تو نعرے تھے۔ لیکن درحقیقت الیکشن کروانے والے روتے ہی رہتے تھے۔ یہی تاریخ یہ لوگ جانتے ہیں ایک دو الیکشن ہوں گے اور سارے باطل نظریات کا صفایا ہوجائے گا۔ اور یہ روپڑیں گے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے خزانے میں ایک حافظ اسلم نہیں بلکہ شہدا کی ایک قطار ہے۔ باصلاحیت طلبہ کی ایک نہیں کئی فصلیں ہیں۔ یہ طلبہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار ہر میدان میں کرتے ہیں۔ دینی تحریکوں قادیانیت کے خلاف تحریک ہو یا بحالی حقوق طلبہ تحریک۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے ہر موقع پر اپنا لہو دیا اور طلبہ اور تعلیمی اداروں کے وقار میں اضافہ کیا۔ اساتذہ کی تکریم کی۔
اب پھر پیپلز پارٹی کی حکومت سے یادش بخیر یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے انہوں نے بھی طلبہ یونین الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا۔ وہ اعلان تو اعلان ہی رہا وہ خود چلے گئے۔ اب مراد علی شاہ صاحب نے اعلان کیا ہے کہ سندھ کے وزیرتعلیم اس معاملے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ کتنی ہمت سے اس کا اندازہ بھی ہورہا ہے۔ پورے ملک میں طلبہ یونین الیکشن کی شدید ضرورت ہے کیوں کہ طلبہ امور میں طلبہ کی شرکت صفر سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ طلبہ اگر دلچسپی لیں تو سیاست کہہ کر تعلیمی ادارے سے اخراج کردیا جاتا ہے۔ جب سے تعلیم صوبائی معاملہ بنی ہے۔ خصوصاً سندھ میں لسانی اور علاقائی سیاست عروج پر ہے۔ یہ فلاں زبان بولنے والوں کی سیٹ ہے، بس میں یہ کہہ کر سیٹ خالی کرائی جاتی ہے۔ کینٹین میں سیٹیں مخصوص ہیں۔ بسوں پر کنٹرول ہے۔ اساتذہ ساتھ ہیں۔ انتظامیہ ساتھ ہے۔ رینجرز تماشائی ہیں۔ کبھی کبھی غصہ آتا ہے تو اندھا دھند پٹائی کرتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی الیکشن کرادے تو مستقبل کی اچھی قیادت ملے گی ورنہ اسے بھی اور صوبے کو بھی نااہل لوگ ہی ملیں گے۔ طلبہ یونین طلبہ سیاست اور الیکشن کا ذکر ہو اور حافظ اسلم یاد نہ آئیں یہ کیسے ممکن ہے۔ بہت سے دوسرے شہدا اور کارکن بھی ہیں لیکن ہماری زندگی پر اثر انداز حافظ اسلم ہی ہوئے اس لیے 26 فروری یوم شہادت پر بے شمار دعائیں۔