حکومت،پولیس ،عدلیہ کی بددیانتی مہنگائی اور بیروزگاری اسٹریٹ کرائمز بڑھنے کی وجہ ہیں

283

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) حکومت، پولیس ’ عدلیہ کی بددیا نتی ‘ مہنگائی اور بیروزگاری اسٹریٹ کرائمز بڑھنے کی وجوہات ہیں‘ رینجرز کے اختیارات میں کمی سیاسی جماعتوں کے جرائم پیشہ عناصر کو بچانے کے لیے کی گئی ‘ پولیس کے کمزور کیسز بنانے کے باعث80 فیصد ملزمان بری ہوجاتے ہیں‘ سیکورٹی فورسز کے پاس کراچی کو سنبھالنے کی صلاحیت موجود نہیں ‘سرکاری عہدے بکتے ہیں۔ ان خیالا ت کا اظہار اسلامک لائرز موومنٹ کراچی کے صدر شاہد علی ایڈووکیٹ، چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد عتیق میر اور محکمہ بلدیات سندھ کے کوآرڈینٹر سردار نزاکت نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’صوبہ اور وفاق کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام میں کیوں ناکام ہیں؟‘‘ شاہد علی ایڈووکیٹ نے کہا کہ کراچی میں جرائم کی روک تھام کا ذمے دار وفاق ہرگز نہیں ہے‘ اس کی ذمے دار حکومت سندھ، سندھ پولیس اور عدلیہ ہیں‘ اس میں صوبائی حکومت کی بددیانتی بھی شامل ہے‘ پولیس یا پھر کسی بھی محکمے میں عملہ بھرتی کرتے وقت اگر عہدے کی قیمت لگائی جائے تو پھر قابلیت، کارکردگی اور ضروری ناپ تول کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی اور دولت کے سامنے سب کچھ ماند پڑجاتا ہے‘ ایک جج کے خلاف پٹیشن لگی ہوئی ہے کہ اس نے سیکڑوں افراد کو غیر منصفانہ طور پر بھر تی کیا ہے‘ اندازہ کیجئے کہ لوگ قتل ہو رہے ہیں‘ لوٹے جا رہے ہیں اور وفاق اور صوبہ آئی جی کی تعیناتی پر دست وگریباںہیں‘ جب تک کراچی کے ہر محکمے سے کرپٹ افسروں کو نکال کر ایماندار افراد کو نہیں لگایا جائے گا اس وقت تک انصاف، امن وامان اور دیانتداری ایک خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عتیق میر نے کہا کہ اگر صوبہ امن وامان کی صورت حال کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوتا ہے تو پھر وفاق اس معاملے کو دیکھتا ہے‘ وفاق اگر چاہے تو گورنر راج لگائے یا وہ وقتی طور پر شہر فوج کے حوالے کر دے یا پھر رینجرز کو اضافی اختیارات دیے جائیں‘ صوبائی حکومت نے کچھ عرصے سے رینجرز کے اختیارات وفاق سے نہیں مانگے‘ رینجرز نے جن اختیارات کے تحت شہر کو پر امن کیا تھا اس میں ایک اختیار90 روز تک جرائم پیشہ عناصر کو حراست میں رکھنے کا بھی تھا‘ وہ ایک ایسی سزا تھی کہ ملزم عدالت سے قبل ہی پورے گروہ کو پکڑوا کر تو بہ کر لیتا تھا‘ یہ قانون اس لیے واپس کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے اپنے پالے ہوئے مسٹنڈے اور جرائم پیشہ عناصر رینجرز کی اس مشق سے بچ سکیں‘ پولیس سے اس لیے کوئی امید نہیںکی جاسکتی کہ پولیس سیاست زدہ ہو کر خوف کا شکار ہے‘ وہ کسی ملزم کو پکڑے تو اس کو یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اگر یہ کسی اعلیٰ سطح کی شخصیت کا کارندہ نکلا تو پھر کہیں ہماری پیٹی نہ اتر جائے‘ پولیس میں کالی بھیڑوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے پولیس کے اچھے افسران کا حوصلہ ہی ختم کر دیا ہے‘ پولیس کے اچھے افراد غیر فعال ہو کر رہ گئے ہیں‘ افسران بالا نے ماضی کی طرح تھانوں اور اہلکاروںکی نگرانی ختم کر دی ہے‘ ماضی قریب میں اعلیٰ پولیس افسران ، تھانے کے افسران اور علاقے کے معزز شہریوں کا مشترکہ اجلاس ہوا کرتا تھا اور ان کی ہدایت پر پالیسی بنا کرتی تھی‘ یہ عمل گزشتہ5 سال سے ختم ہوچکاہے‘ اسٹریٹ کرائم کے گروہ قاتل ٹولیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں‘ یہ وہ افراد ہیں جو گزشتہ سالوں تک مختلف سیاسی جماعتوں کے کارندے ہوا کرتے تھے بعد ازاں منشیات کی لت کو پورا کرنے کے لیے چوری اور ڈکیتی کر نے لگے اور اب ان کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیںکہ تھوڑی سی بھی مزاحمت پر یہ سامنے موجود انسان کو چند ٹکوں کے عوض گولی مار کر قتل کر دیتے ہیں اس طرح کے حوصلے اس وقت ہی پیدا ہوتے ہیں جب ملزمان کی پشت پناہی طاقتور عناصر کر رہے ہوں۔ عتیق میر نے کہا کہ پولیس کے پیچھے سیاسی ہاتھ نظر آجا تا ہے مگر ایسے عناصر کے عزائم دنیا کے سامنے آشکار نہیں ہوتے یہ عناصر اپنے آقاؤں کے لیے فنڈنگ کا بہت بڑا ذریعہ ہوتے ہیں اور اس طرح عوام کو بھی بدامنی اور لا قانونیت کے پیچھے لگا کر اپنے ایجنڈے کو پائے تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے‘ اس لاقانونیت کے خلاف تاجر، صحافی، سیاسی جماعتوں سمیت عوام بھی احتجاج کی طرف جا رہے ہیں اور ایک بار پھر ہم 2013ء سے قبل کی صورت حال کی طر ح پیچھے جاتے نظر آرہے ہیں‘ رینجرز کا گلہ ہے کہ وہ انتہائی مشقت سے ایک ملزم کو گرفتار کرتی ہے اور اسے تھانوں کے سپر د کیا جاتا ہے ‘ تھانوں میں ان پر کمزور کیس بنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے 80 فیصد ملزم عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ خطر ناک ثابت ہوتے ہیں ‘ حکومت سندھ کو شہر میں امن وامان قائم کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔سردار نزاکت نے کہا کہ شہر قائد میں اسٹریٹ کرائم بڑھنے کی بڑی وجہ ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری ہے‘ ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قیمت میں کمی ہے‘ جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ بے روزگاری ہے‘ اگر اسے کنٹرول کر لیا جائے تو شہر کے امن وامان پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے ‘ دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے ولے اداروںکے پاس اتنی صلاحیت موجود نہیں ہے کہ وہ 3 کروڑ سے زاید آباد ی والے شہر کو کنٹرول کر سکیں‘ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان رابطے کا فقدان ہے‘ وفاق اور صوبے کو مل کر ایک مربوط اور مضبوط پالیسی بنانی چاہیے جس میں وفاق کو چاہیے کہ وہ سندھ حکومت کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرے تاکہ شہر قائد کے امن وامان کو بحال کیا جاسکے۔