مظلوم عوام کے لیے بھی قانون حرکت میں لائیں

443

 

جن لوگوں کو بھی چودھری فضل الٰہی یاد ہیں وہ اب انہیں بھول جائیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کسی نے ایوان صدر کے باہر دیوار پر لکھ دیا تھا کہ چودھری فضل الٰہی کو رہا کرو۔ کیوں کہ وہ ایوان صدر کے قیدی بن کر رہ گئے تھے ان کا کام صرف قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی مدح سرائی اور ان کی ہاں میں ہاں ملانا تھا۔ ان کے اس رویے اور کردار کی وجہ سے بہت سے لطائف گشت کرتے تھے اور اس رویے نے اٹھاون 2 بی کو جنم دیا۔ اس کے اپنے اثرات اور نتائج تھے۔ آج اسی 58 ٹو بی کے خاتمے والی 18 ویں ترمیم بھی زیر بحث ہے۔ تو جس جس کو ایوان صدر کے قیدی چودھری فضل الٰہی یاد ہیں انہیں بھول جائے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ غیر ملکی مہمانوں سے بھی کم گفتگو کیا کرتے تھے اتنا کہا کرتے کہ کیا حال ہیں۔ ان سے شکوہ کیا گیا آپ صرف کیا حال ہیں تک رہ جاتے ہیں معزز مہمانوں سے مزید گفتگو کیا کریں۔ تو لکھنے والوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ صدر نے ایک غیر ملکی مہمان سے پوچھا کیا حال ہیں۔ جواب آیا جی ٹھیک ہیں۔ آپ کے کیا حال ہیں۔ اس کے بعد خاموش… صدر کے افسران نے کہا کہ جناب اور کچھ بات کریں تو انہوں نے کہا کہ ان سے پوچھو ’’ہور کی حال نے‘‘ یہ بھی پوچھ لیا گیا اور بالآخر ایوان صدر سے یہ قیدی چھوٹا اور ایوان صدر جنرل ضیا الحق کی قید میں آگیا۔ اس کے بعد سے صرف صدر رفیق تارڑ نے کچھ کوشش کی تھی لیکن وہ اس معیار تک نہیں پہنچ سکے۔ ایوان میں آنے والے دیگر صدور بھی خصوصاً جنرل مشرف اور آصف زرداری اس کے مقابلے میں خاصے مختلف تھے بلکہ ان کے زمانوں میں بھی ایوان صدر قید تھا۔ لیکن اب لوگ چودھری فضل الٰہی اور رفیق تارڑ صاحب کو بھول جائیں۔ نئے ریکارڈز کا انتظار کریں۔
ہمارے وزیراعظم نے اب تک جتنے بھی اعلانات کیے ہیں ان کا نشانہ عوام بنے ہیں یا ملک کی معیشت کو نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے اور یہ کہہ کر عوام کو اطمینان دلایا لیکن عوام حیران ہیں کہ گھبرائیں یا گھر جائیں۔ عوام تو گھبرا بھی نہیں سکتے کیوں کہ وہ گھبرا کر جائیں گے کہاں۔ لیکن اب وزیراعظم نے اپوزیشن کو کہہ دیا ہے کہ گھبرانا نہیں گویا اپوزیشن کی اب خیر نہیں۔ اب تک وہ اپوزیشن کے خلاف سخت جملے اور ان کو جیلوں میں ڈالنے کی بات کرتے تھے ان کی منزل جیل ہے اسمبلی نہیں وغیرہ وغیرہ، مگر ایسا نہیں ہوا بار بار اپوزیشن حکومت سے تعاون کرکے سرخ رو ہوتی رہی۔ جس جملے نے عوام کی زندگی اجیرن کردی اور وہ احتجاج بھی نہ کرسکے۔ پوری پارٹی کے لوگ بھی اس معاملے پر کوئی آواز نہیں اٹھا سکے کیوں کہ کپتان نے کہا ہے گھبرانا نہیں۔ اب اپوزیشن سے وہی جملہ کہہ دیا گیا ہے گویا اب اپوزیشن کی خیر نہیں کیوں کہ خان صاحب نے جس سے یہ کہا کہ گھبرانا نہیں اس کی شامت آگئی۔ وہ جن لوگوں سے ایسا کہتے ہیں ان کے تحفظ کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اب اپوزیشن حقیقی معنوں میں گھبرائے گی کیوں کہ ان کو وہی جملہ کہہ دیا گیا ہے جس کے بعد پورا ملک مصیبت میں آگیا۔
وزیراعظم نے ایک اور اعلان کیا ہے کہ اب کسی کی عزت کو نہیں اچھالا جائے گا۔ وہ یہ بھی واضح کردیں کہ اب سے کیا مراد ہے اور کیا یہ کام صرف حکومت کے خلاف نہیں ہوسکے گا یا حکومت کی جانب سے بھی نہیں کیا جائے گا۔ ایک لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ کسی اظہار رائے کے بنیادی حق اور لوگوں کی ساکھ کے تحفظ کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ توازن کیسے پیدا ہوگا۔ پنجاب میں سیکڑوں خواتین کی عزت سرعام اچھالی گئی۔ کیا اب یہ سلسلہ بند ہوجائے گا۔ سندھ میں تانیہ خاصخیلی کی والدہ خورشید خاصخیلی اور اس کی بہن اپنی عزت اچھالے جانے کے خلاف انصاف مانگ رہی ہیں۔ سندھ کا حال تو بہت برا ہے۔ حکمران ہی عوام کی عزت تار تار کررہے ہیں۔ ام رباب، پروین رند، روبینہ اجن یہ کون لوگ ہیں ان کا مسئلہ کیا ہے۔ کیا یہ حکومتی شخصیات تھیں… نہیں… یہ عام لوگ ہیں اس لیے حکومت کو کسی قسم کے قانون کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ایوان صدر حرکت میں آیا نہ وزیراعظم ہائوس کا تخت ہلا۔ کہیں کوئی جھٹکا نہیں لگا۔ کیا ایوان صدر تک نوکوٹ کی دو بیٹیوں کی چیخیں نہیں پہنچیں۔ مائی جندو، ویرو کوہلی، شیریں جوکھیو، ناظم جوکھیو کے گھر والوں اور دیگر مظلوموں کی عزت نہیں اچھالی گئی۔ جس طرح فضل الٰہی چودھری کو بھول جانے کا مشورہ ہے اسی طرح پارلیمنٹ کے بارے میں ربراسٹیمپ کا لفظ بھی تبدیل کرنا ہوگا یہ الفاظ اب پرانے اور غیر موثر ہوگئے ہیں لیکن موثر الفاظ سے تو کسی کی طبع نازک پر بوجھ اور اس کی عزت اچھل جائے گی۔