مودی سرکار کی ناقد صحافی رعنا ایوب کو ہراساں کرنے پر اقوام متحدہ کا اظہار مذمت

505

اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل نے بھارت سرکار پر صحافی رعنا ایوب کو عدالتی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دوسری جانب نئی دہلی حکومت نے ان الزامات کو بے بنیاد اور غلط قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل (یو این ایچ آر سی) نے بھارتی صحافی رعنا ایوب کے خلاف درج مقدمات کو ہراساں کرنے کی کارروائی قرار دیتے ہوئے بھارت سے اپیل کی ہے کہ ان پر سوشل ‘میڈیا پر بھی ہونے والے حملوں‘ کو روکنے کے اقدامات کرے۔ دریں اثنا امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے رعنا ایوب کی حمایت میں ادارتی صفحے پر شایع مضمون “بھارت میں آزاد پریس پر حملے” کا ذکرکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہیں تعصب پر مبنی تفتیش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ رعنا ایوب کو عدالتی ہراسانی کا سلسلہ فوراً بند کیا جائے۔ ”ایک تحقیقی صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن رعنا ایوب دائیں بازو کے ہندو قوم پرست تنظیموں کی طرف سے آن لائن حملوں اور دھمکیوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ان پر یہ حملے ملک میں مسلم اقلیتوں کو متاثر کرنے والے موضوعات پر بات کرنے، کورونا وبا سے ٹھیک سے نہ نمٹنے پر حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور حال ہی میں حجاب پر پابندی جیسے معاملات پر ان کے تبصروں کی وجہ سے ہو رہے ہیں اورانہیں جان سے مار دینے تک کی دھمکیاں دی گئی ہیں”

بیان میں رعنا ایوب کے خلاف حال ہی میں کی گئی قانونی کارروائی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حکام رعنا کو قانون کی آڑ میں پریشان کر رہے ہیں۔ چھ ماہ میں دوسری مرتبہ ان کے بینک اکاونٹ اور دیگر اثاثے منجمد کر دیے گئے، ”ایسا فراڈ اور منی لانڈرنگ کے بے بنیاد الزامات کے نام پر کیا گیا۔‘‘

واشنگٹن پوسٹ نے ‘بھارت میں آزاد پریس حملے کی زد میں‘ کے عنوان سے پورے صفحے پر مشتمل ایک کالم شائع کیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے، ”رعنا ایوب کو تقریبا ً ہر روز تشدد اور قتل کر دیے جانے کے خطرات کا سامنا ہے۔‘‘ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ انہیں تعصب پر مبنی تفتیش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آن لائن ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کے فلاحی کاموں کی وجہ سے ان کا بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیا گیا۔

واشنگٹن پوسٹ نے ”وی اسٹینڈ ود رعنا” ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا، کہ صحافیوں کو قانونی کارروائیوں اور بدنام کرنے کے لیے چلائی جانے والی مہم سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری جانب بھارتی حکام نے الزامات کی تردید کی ہے۔ اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے کہا،”ہم خصوصی نمائندے سے غیر جانبدارانہ اور معروضی انداز میں اطلاعات فراہم کرنے کی امید کرتے ہیں۔ گمراہ کن باتوں کو فروغ دینا اقوام متحدہ کے امیج کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ بھارتی صحافی رعنا ایوب وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی پالیسیوں کی سخت ناقد ہیں۔ انہوں نے گجرات فسادات اور فرضی اِنکاونٹروں وغیرہ کے حوالے سے آٹھ ماہ کا ایک اسٹنگ آپریشن بھی کیا تھا۔ یہ مواد بعد میں ‘گجرات فائلز‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں نریندر مودی اور امِت شاہ کے حوالے سے بہت سے انکشافات ہیں۔

رعنا نے کورونا وبا سے متاثرین کی مدد کے لیے رقم جمع کی تھی۔ ‘ہندو آئی ٹی سیل‘ نامی ایک این جی او نے اس رقم میں خرد برد کا الزام لگایا، جس کے بعد حکومتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بینک میں جمع 1.77 کروڑ روپے اس ماہ کے اوائل میں منجمد کر دیے۔ رعنا ایوب منی لانڈرنگ اور دیگر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ انہیں بدنام کرنے کی منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے۔

بھارتی صحافیوں کی متعدد تنظیموں نے رعنا ایوب کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور ان کو ہراساں کرنے کی حکومتی کارروائیوں کی نکتہ چینی کی ہے۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ‘کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس‘ کے مطابق بھارت میں گزشتہ برس کم از کم چار صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا جبکہ کم از کم آٹھ صحافی اس وقت جیل میں ہیں۔