عدم اعتماد سے پہلے اپنا اعتماد بحال کریں

641

روزانہ اخبارات ان خبروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے لیے رابطے تیز کردیے۔ بس اب کی بار حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ملک کے لیے تباہ کن اور خطرناک ہے اس سے چھٹکارا لازمی ہے۔ اب اسلام آباد کی طرف مارچ ہوگا۔ اب دمادم مست قلندر ہوگا۔ لیکن ان اعلانات کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھرپور تعاون کیا جاتا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے حکومتی ارکان اسمبلی بھی اپوزیشن سے رابطے کررہے ہیں۔ (ن) لیگ کہتی ہے کہ ہم حکومت گرانے کی پوزیشن میں ہیں۔ کیا واقعی… کہ خوشی سے مر نہ جاتے… یہ سنتے سنتے تقریباً پونے چار سال گزر گئے کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اپوزیشن نے اپنا اعتماد اور ساکھ دائو پر لگا کر اسے تباہ کردیا ہے۔ اپوزیشن کوئی تحریک عدم اعتماد پیش نہ کرے۔ کسی کے خلاف مارچ نہ کرے اگر ن لیگ کہتی ہے کہ وہ بعض اپوزیشن حکومت گرانے کی پوزیشن میں ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ مولانا فضل الرحمن، بلاول زرداری اور خود آصف زرداری، شہباز شریف اور وزارت عظمیٰ کے تمام امیدواروں سے مودبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ نے رابطے کرلیے ہیں اور نہیں کیے ہیں تو جلد مکمل کرلیں اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے سے پہلے اپنا منہ اس قابل بنالیں کہ آپ کوئی مارچ کریں اور اسے عوامی مفاد میں ثابت کرسکیں۔
اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی نہیں اپنے اعتماد کی بحالی کی ضرورت ہے۔ اگر اپوزیشن کے دعوئوں کے مطابق ساری تیاریاں مکمل ہیں رابطے ہوچکے۔ حکومتی ارکان بھی ساتھ دے رہے ہیں حکومت گرانے کی پوزیشن میں ہیں تو سب سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو واپس لائیں بلکہ ان کو معقول سطح تک نیچے لائیں۔ دوسرا کام یہ کریں کہ حکومت کو مجبور کرکے آئی ایم ایف پروگرام سے باہر نکل آئیں۔ پھر تنگی آئی تو آئی ایم ایف کے بجائے اپنے عوام کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔ ان شاء اللہ عوام اعتماد کریں گے۔ اگلا مرحلہ بجلی کے نرخ واپس لانا ہے۔ اس کو بھی معقول حد تک کم کروائیں۔ حکومت کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر مجبور کریں۔ وزرا ارکان اسمبلی اور مشیروں کے فضول خرچے بند کیے جائیں۔ جب حکمران اپنی فضول خرچیاں بند کریں گے اور اپوزیشن اس کام پر انہیں مجبور کرے تو اس کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کررکھا ہے، عوام کو ٹیکس چور کہا جاتا ہے اور خود سارے چوروں کو جمع کر رکھا ہے۔ عوام پر دوہرے تہرے ٹیکس کا بوجھ کم کرایا جائے۔ روزگار میں اضافہ تو دوسرا مرحلہ ہوگا پہلے گزشتہ ساڑھے تین سال میں بے روزگار ہونے والوں کو روزگار دلوایا جائے۔ ان کا روزگار بحال کرائیں اور اپوزیشن اپنا اعتماد بحال کرائے۔ روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرنے کے لیے نجکاری کے اندھے کوڑے برسانے کے بجائے پاکستان اسٹیل جیسے بڑے قومی اداروں کو بحال کیا جائے۔ ملک بھر میں صنعتی اداروں کو دن رات کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالتوں میں بھی دن رات کام کرنے کا حکم جاری کروایا جائے۔ پولیس کو عوام کا خادم بنایا جائے تب جا کر اپوزیشن کا اعتماد بحال ہوگا۔
ضروری نہیں کہ سارے کاموں کا سہرا اپوزیشن کے سر باندھا جائے۔ یہ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کے ساتھ عوام کے خلاف بھی تو اتحاد کرتے رہتے ہیں۔ اچھے کاموں میں بھی مل جائیں۔ اس میں بھی وہی ڈراما کریں پہلے احتجاج پھر مذاکرات پھر اتفاق رائے سے بل… یہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ارادہ تو ہو۔ اگر یوں کہا جائے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے بچنا چاہتی ہے اور اپنا اعتماد بحال کرانا چاہتی ہے تو اسے یہ سارے کام کرنے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ مارچ، یہ حکومت گرانا اور نئے الیکشن، یا ان ہائوس تبدیلی یہ سب نااہل لوگوں کی ایک حکومت گرا کر نااہل لوگوں کی دوسری حکومت قائم کرنے کے مترادف ہوگا۔ حکمرانوں کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عوام کو خوفزدہ کرکے ان کو غلام بنا کر رکھو تاکہ احتجاج کی
آواز بھی نہ اٹھ سکے۔ فوج اور عدلیہ پر تنقید کو 5 سال سزا کا آرڈیننس اور انتخابی جلسوں میں وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کی شرکت کا آرڈیننس لا کر قوم کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کیسے حکمران ہیں کہ ہر کام پر سزا کا اعلان۔ انہیں معلوم بھی ہوگا کہ ایسے کاموں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ جب کسی گھر میں بچوں کو ہروقت دھمکی دی جاتی ہے کہ نہیں کھانا نہیں ملے گا۔ اسٹور میں بند کردیں گے۔ گھر سے باہر نکال دیں گے۔ کچرے میں پھینک دیں گے۔ ذرا بڑے ہوں تو موبائل چھین لیں گے۔ جیب خرچ بند کردیں گے وغیرہ وغیرہ… تو پھر بچہ گھر والوں سے بغاوت ہی کرتا ہے۔ ہمارے حکمران کیا چاہتے ہیں۔ اپنی قوم کو سچ مچ باغی بنانا چاہتے ہیں۔ ابھی تو محض اختلاف رائے پر 5 سال سزا کی دھمکی دی جارہی ہے اگر یہ سزائیں دی جانے لگیں تو اس ملک میں باغی ہی پیدا ہوں گے۔ اپوزیشن اور حکومت اپنا اعتماد بحال کرانا چاہتے ہیں تو دھمکی کے بجائے ریاست کو ماں بنائیں۔ مائیں دھمکی نہیں دیتیں پیار کرتی ہیں سمیٹ لیتی ہیں۔ غلطیوں کو معاف کرتی ہیں سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہیں۔ لیکن کیا پی پی پی، مشرف کے وزرا، ق لیگ والے، ن لیگ والے، ایم کیو ایم والے، اے این پی والے اور ہر حکومت میں رہنے والے دیگر لوگ یہ کام کرسکیں گے؟۔ ہمارے خیال میں تو ان لوگوں کی کارکردگی میں یہ خانہ ہی نہیں ہے۔ اس لیے کوئی توقع تو نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر اپوزیشن یہ سب کچھ نہیں کرسکی تو لوگ اس کا ساتھ کیوں دیں گے۔