نئے دل پسند استیصال کی تلاش

570

دوستو! کوئی خوفناک قسم کی خرابی ہے اس نظام میں یا پھر یہ نظام بجائے خود ہی خراب اور غلط ہے۔ تبدیلی کی میٹھی سی بدبو اب ناقابل برداشت بھبکوں اور سڑاند کی اذیت میں بدلتی جارہی ہے۔ نسل درنسل خالص آمریتوں اور جمہوری آمریتوں کے ہاتھوں رسوا ہونے والے عوام کے لیے یہ نظام ایسا سٹّہ ہے جس میں انہیں ہارنا ہی ہارنا ہے۔ یہ کردار جو آج ہم پر مسلط ہے کامیاب نہ ہوسکتا اگر فوجی قیادت اقتدار اس کے حوالے نہ کرتی۔ بڑے پیمانے پر غصہ! آپ کہیں بھی جائیں یہ غصہ ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکمران قیادت وہ سیاسی ہے یا فوجی عوام کی نظر میں مکروہ نہیں مکروہ ترین ہے۔ شر کی قوت اس ملک میں اتنی گہرائی میں پیوست ہوچکی ہے اور اس کا غلبہ اتنا کثیر الاطراف ہوچکا ہے کہ تکلیف سے ہر قدر اور عزت کے ہر احساس کا چہرہ نیلا پڑ چکا ہے۔ سیاسی نان ایشوز کے ساتھ حکمران سیاسی رہنمائوں کے جو جنسی اسکینڈل اور شرمناک تعلقات کے قصے بیان کیے جارہے ہیں کسی بازاری آدمی پر بھی ایسے الزام لگا دیے جائیں تو وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک اپنی پوزیشن اہل دنیا کی نظر میں صاف نہ کرلے لیکن عمران خان، مراد سعید، شیخ رشید اور دوسرے بہت سے شرفاء ان الزامات کو کسی عدالت میں چیلنج کرنے پر تیار نہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جنہیں جج کہتے ہوئے بھی عدل کی تو ہین محسوس ہوتی ہے ان کی آڈیو ریکارڈنگ شخصی بے حرمتی کی ایسی شہادت تھی کہ کسی بھی عزت دار شخص کو دل کے ایک درجن دورے پڑ جاتے لیکن وہ اسے کسی بھی عدالت کسی بھی فورم پر چیلنج کیے بغیر بیرون ملک بھاگ گئے۔
سیاسی جوڑ توڑ اور گالم گلوچ کا وہ عالم ہے کہ لگتا ہے ملک کا جہاز دھوئیں پر چل رہا ہے اور اسے چلانے کے لیے وھیل پر کوئی موجود نہیں کیونکہ جو ڈرائیور اس سیٹ کے لیے سلیکٹ کیا گیا تھا وہ نشے میں دھت ہے۔ پورے ملک میں سراسیمگی کی کیفیت ہے۔ ایک موقع پر سابق آرمی چیف جنرل کاکڑ نے اس مفہوم کی بات کی تھی کہ ملکی حالات میرے ہاتھ کی جنبش پر منحصر ہیں وہ جب چاہیں انہیں کوئی بھی رخ دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا رخ بدل دینے کی یہ بابرکت سعادت آج بھی آرمی چیف کو حاصل ہے۔ ملک میں لوٹ مار اور بدانتظامی کا بازار وہ چلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔ کہاں وہ جارحانہ عناد کہ ڈان لیکس پر آپے سے باہر ہوگئے اور کہاں یہ خالی خالی نظریں کہ دوتین مہینے ڈی جی آئی ایس آئی کا معاملہ لٹکا رہا پھر بھی یہ تذبذب پایا جاتا ہے کہ ایک ہی پیج پر رہنا ہے یا نہیں۔ سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود عمران خان جس طرح کامیاب ہیں، ان کی حکومت پورے دھڑلے سے جس طرح اپنے جھوٹ بیچنے کی کوشش کر رہی ہے اور ریاست کے ادارے صحافیوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں، ایک پیج کے ساتھ کے بغیر اس کا تصور محال ہے۔ جس جرم پر محسن بیگ پر دھاوا بولا گیا ہے وہ ڈرٹی گیم تو عمران خان اور ان کے وزراء عرصے سے اپنے مخالفین کے خلاف کھیل رہے ہیں۔ اب ہم ایک تیسرے درجے کی بنانا ری پبلک سے زیادہ نہیں رہے لیکن حالات کے سدھار کی کسی کو جلدی نہیں ہے۔
ایک طرف سیاست دانوں کی ایسی ملاقاتیں جاری ہیں جیسے کوئی ریموٹ کنٹرول سے انہیں چلارہا ہے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ شہباز شریف چودھری برداران کے گھر جائیں گے۔ ق لیگ سے سیاسی مفاہمت کا ہر دروازہ نوازشریف نے بند کررکھا تھا۔ بیس برس سے زائد ہونے کو آرہے ہیں چودھری پرویز الٰہی کا نام سن کر وہ غصے سے چقندر ہوجایا کرتے تھے، کسی سیاسی مفاہمت یا سیاسی ملاقات تو درکنار سرراہ سلام دعا کی نوبت نہیں آنے دی جاتی تھی۔ یہی حال پیپلز پارٹی اور چودھری برداران کا تھا۔ چودھری شجاعت کے والد چودھری ظہورالٰہی اور بھٹو صاحب کے پاس ایک دوسرے کے لیے نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ جس قلم سے بھٹو کی سزائے موت لکھی گئی تھی چودھری ظہور الٰہی اس قلم کے خریدار تھے۔ اسی طرح چودھری ظہور الٰہی کے قتل پر پیپلز پارٹی والوں کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی لیکن آج زرداری صاحب کچھ یاد رکھنا چاہتے ہیں اور نہ چودھری برادز۔ عمران خان بھی چودھری برادران کو چور قاتل اور ڈاکو کہا کرتے تھے۔ مونس الٰہی کو وزیر بنانا تو ایک طرف وہ کا بینہ کی میٹنگز تک میں دیکھنا گوارا نہیں کیا کرتا تھا لیکن آج وہی مونس الٰہی عمران خان کو ساتھ نبھانے کی یقین دہانی کراتے ہیں تو عمران خان خوشی سے گلنار ہوجاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام ملاقاتوں اور تجدید وفا کے وعدوں کے باوجود سب متحرک ہونے کے لیے امپائر کے اشارے کے منتظر ہیں۔ ایم کیو ایم بھی ماضی کے ہر جال کو توڑتی ہوئی سب سے ملاقاتیں کررہی ہے چاہے وہ وزیراعلیٰ سندھ ہوں، شہباز شریف ہوں یا چودھری برادرز۔ جہانگیر ترین گروپ کے اجلاس کے فیصلے دور تک دوربین لگا کر دیکھے جاتے ہیں لیکن سب منتظر۔ کھیرے کی طرح ٹھنڈے۔ اپنے پتے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں کہ کب اشارہ ہو تب تحریک عدم اعتماد کا کھیل شروع کریں۔ یہ کیسا سیاسی نظام ہے، کیسی جمہوریت ہے، جسے چلانے کے لیے فوجی قیادت کے سگنل کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی رعونت، تکبر اور منتقم مزاجی سے سب کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ ان کی یہ سوچ کہ ’’میرے سوا کوئی آپشن نہیں ہے‘‘ ان کے لیے اس قدر تباہ کن ثابت ہوئی کہ وہ اپنے ہی بوجھ سے دھنستے چلے گئے۔ اس وقت جو کچھ بھی اکھاڑ پچھاڑ ہورہی ہے اس میں کسی کو کچھ نہیں کھونا، سوائے عمران خان کے۔ جہانگیر ترین فوج کے بعد ان کے سب سے بڑے محسن تھے لیکن ان کی محسن کشی کی عادت کی وجہ سے آج وہ ان کی مخالف صف میں ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کے ارکان ہوں، ق لیگ کے، یا خود تحریک انصاف کے سب کو یقین ہے کہ ن لیگ تحریک انصاف کو بہا کر لے جائے گی۔ جہانگیر ترین،ق لیگ، پیپلز پارٹی سب ن لیگ ہی سے مستقبل کے حوالے سے لین دین کررہے ہیں۔ تحریک انصاف میں خود اپنے اندر بھی معاملات درست نہیں چل رہے۔ میڈیا کو عمران خان نے جس طرح فکس اپ کرنے کی کوشش کی ہے اس نے پورے میڈیا کو ان کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ آج میڈیا میں ان کے لیے کہیں کلمہ خیر نہیں ہے۔ عمران خان نے سوچ رکھا ہے کسی طرح وہ دوماہ گزار لیں اور نئے آرمی چیف کے انتخاب کا معاملہ ان کے ہاتھ میں آجائے۔ وہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کو منتخب کرکے نہ صرف اپنی یہ مدت پوری کرلیں گے بلکہ آئندہ پانچ سال بھی ان کے پکے ہیں۔ اسی چکر میں انہوں نے عوام کی طرف بھی پیٹھ کررکھی ہے اور بلاکسی خوف اور تردد کے ہر روز کروڑوں غریبوں کو غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے تازیانے سے مارنے کا بندوبست کرتے چلے جارہے ہیں۔
اس نظام کے سیاسی، سماجی اور معاشی جبر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس مرتے ہوئے نظام کی جمہوریت امیروں کے لیے امیروں کا انتظا م ہے۔ ہر الیکشن میں فوجی قیادت یہ طے کرتی ہے کہ کون سی سیاسی جماعت ان کی زیادہ تابعدار اور عوام کا زیادہ استیصال کرے گی۔ یہ نظام اپنی موت کی طرف رواں ہے۔ اس نظام کے اتحاد ہوں یا اختلاف سب کا مقصد لوٹ مار میں مناسب حصہ داری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ فرق یہ ہے کہ کوئی حکومت عوام پر تیزی لیکن اناڑی پن سے کاری وار لگاتی ہے اور کوئی مہارت سے، پچکار پچکار کے اور آہستہ آہستہ، مل بانٹنے کی نفاست کے ساتھ یہ کھیل کھیلتی ہے۔ اگلے الیکشن کی صورت قوم ایک بار پھر نئے دل پسند استیصال کی تلاش میں ہے۔ عمران خان کی منتقم مزاجی نے انہیں عزت اور وقار سے حکومت کرنے دی اور نہ ہی عزت اور وقار سے انہیں رخصت ہونا آرہا ہے۔ انہوں نے اپنا جتنا نقصان کرلیا ہے ناقا بل تلافی اس کے لیے بہت معمولی لفظ ہے۔ ان کا آغاز بھی رسوائی تھا اور انجام بھی۔ انہوں نے جس اندوہناک طریقے سے غریبوں کی بددعائیں سمیٹی ہیں موجودہ آرمی چیف ہوں یا اگلے کوئی انہیں اس انجام سے نہیں بچا سکے گا جس کے وہ خود ہی معمار ہیں۔