بوسنیا کی تقسیم ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

385

برسلز: یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے نگران عہدیدار یوزیپ بوریل نے کہا ہے کہ بلقان کی ریاست بوسنیا میں موجودہ کشیدگی بہت تشویشناک ہے مگر یورپی یونین بوسنیا کی کسی قسم کی تقسیم ہرگز قبول نہیں کرے گی۔

غیر ملکی  خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میں جاری تین روزہ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے آخری دن یوزیپ بوریل نے گزشتہ روز بوسنیا ہرزیگووینا کے رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ اِس ممکنہ جغرافیائی تقسیم کا راستہ روکیں۔میونخ سکیورٹی کانفرنس کے شرکاء  سے اپنے خطاب میں یورپی یونین کے اعلیٰ سفارتکار نے کہا کہ بوسنیا کی صورتحال کبھی بھی بہت آسان نہیں رہی لیکن موجودہ صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ تشویش کا باعث ہے۔

انہوں  نے مزید کہا کہ وہ بوسنیائی سرب رہنما میلوراد ڈوڈک پر بھی زور دیتے رہے ہیں کہ وہ بوسنیا ہرزیگووینا میں تمام ریاستی ڈھانچوں میں اپنی اور بوسنیائی سرب جمہوریہ کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔بوسنیا کی جنگ کے اختتام کا سبب بننے والا ڈیٹن امن معاہدہ امریکا میں اِسی نام کے ایک شہر میں تقریباً 26 برس قبل طے پایا تھا جس کے تحت بوسنیا ہرزیگووینا میں دو مختلف حکومتی اکائیاں قائم کی گئی تھیں۔ایک بوسنیائی سرب جمہوریہ کا انتظام بوسنیائی سربوں کے پاس ہے اور دوسری بوسنیائی کروآٹ فیڈریشن کا انتظام مشترکہ طور پر بوسنیائی مسلمانوں اور کروآٹوں کے پاس ہے۔

ان دونوں حکومتی اکائیوں کو بوسنیا کے مشترکہ ریاستی اداروں کے ذریعے باہم مربوط کیا گیا ہے اور بوسنیا ہرزیگووینا کے تمام نسلی گروہ حکومتی فیصلے اتفاق رائے سے کرنے کے پابند ہیں۔بوسنیا ہرزیگووینا کی تازہ صورتحال کے پیشِ نظر امریکا نے گزشتہ ماہ بوسنیائی سرب رہنما میلوراد ڈوڈک پر نئی پابندیاں لگا دی تھیں۔ڈوڈک کا گزشتہ کئی برسوں سے مطالبہ ہے کہ بوسنیائی سرب جمہوریہ سرپسکا کو وفاقی ریاست بوسنیا ہرزیگووینا سے الگ کرکے ہمسایہ ملک سربیا میں شامل کر دیا جائے۔

بوسنیائی سرب قیادت کی کوشش ہے کہ اب تک کے مشترکہ ریاستی نظام کے برعکس جمہوریہ سرپسکا کی فوج، عدلیہ اور ٹیکس وصولی کا علیحدہ نظام ہونا چاہیے۔نوے کی دہائی میں بوسنیا کی خوں ریز جنگ برسوں تک جاری رہی تھی۔ یہ اس براعظم میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی بدترین جنگ تھی جس میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان شہید اور لاکھوں بے گھر ہوگئے تھے.