گھبرانا نہیں اور پٹرول بھروانا نہیں

664

انسانی بستیوں پر یلغار اور سفاکیت میں آج بھی تاتاریوں کا نام لیا جاتا ہے لیکن ان کے بھی کچھ اصول تھے۔ تاتاری جب کسی آبادی پر حملہ کرتے تو محاصرہ کرنے کے بعد تین دن انتظار کرتے۔ محاصرے کے پہلے دن سفید جھنڈا لہرایا جاتا اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اگر اہل شہر ہتھیار ڈال کر شہر کے دروازے کھول دیں تو کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ سب کے لیے امان ہے۔ اگر شہر کے دروازے نہ کھلتے تو دوسرے دن سرخ جھنڈا لہرایا جاتا اس کا مطلب یہ ہوتا کہ لڑنے والوں کے لیے امان نہیں باقی کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ تیسرے دن بھی شہر کو تاتاریوں کے حوالے نہ کیا جاتا تو پھر سیاہ جھنڈا لہرایا جاتا۔ جس کا مطلب یہ ہوتا کہ اب کسی کے لیے امان نہیں ہے۔ ہر کسی کوقتل کیا جائے گا۔ جنگ شروع ہوجاتی۔ تاتاری اپنی اکثریت اور جنگجو فطرت کے باعث جیت جاتے۔ پھرعورتوں اور بچوں سمیت شہر کی تمام آبادی کو قتل کردیتے۔ مال ودولت لوٹنے کے بعد گھروں، کھیتوں، کھلیانوں کو آگ لگادی جاتی۔ ایک مختصر وقفے کے لیے قیام کرتے اور پھر دوسرے شہر پر یلغار کرنے کے لیے آگے بڑھ جاتے۔
عمران خان کو نوازشریف کے مقابلے میںlesser Evil کے طور پر نہیں بلکہ صادق اور امین کا خطاب دے کر مسلط کیا گیا تھا لیکن عوام پر آئے دن یلغار اور سفاکیت میں وہ تاتاریوں سے بڑھ کر ثابت ہورہے ہیں۔ تاتاری کسی بستی پر ایک ہی مرتبہ حملہ کرتے تھے ایک ہی مرتبہ قتل عام کرتے تھے عمران خان پچھلے ساڑھے تین برس سے وطن عزیز کو مسلسل برباد کررہے ہیں، کسی نہ کسی عنوان ہر روز حملہ کررہے ہیں۔ خزانہ لٹ چکا، سرکاری مال دونوں ہاتھوں سے کھا لیا گیا، ترقی کا کہیں نام ونشان نہیں، ملک آئی ایم ایف کے سپرد ہوگیا، ہر طرف دھواں اٹھ رہا ہے پھر بھی ان کی سرکار حملے کرنے سے باز نہیں آرہی ہے۔ تازہ حملہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ یکمشت بارہ روپے فی لیٹر اضافہ۔ پاکستان میں سول حکومت تو کجا کسی فوجی ڈکٹیٹر نے بھی کبھی ایک ساتھ اتنا اضافہ نہیں کیا۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں یہ بلند ترین اضافہ اور بلند ترین قیمت ہے۔ اسی طرح بجلی کی قیمت بھی پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، دو روز پہلے بجلی کی قیمت میں تین روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا، ڈالر بھی پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور عوام۔۔۔ اور عوام۔۔۔ پاکستان کی تاریخ کی پست ترین سطح پر۔ گزشتہ ادوار میں سال چھے مہینے میں پٹرول کی قیمتوں روپے دو روپے اس طرح اضافہ ہوتا تھا:
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
پھر بھی سیاست دان شور مچادیا کرتے تھے، میڈیا پر مضمون باندھے جاتے تھے ’’پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بے چینی پھیل گئی۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوگیا۔ عوام میں شدید بے چینی، غم وغصہ پایا جاتا ہے کیو نکہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔۔۔‘‘ حکومت ہفتوں صفائیاں دینے میں لگی رہتی تھی۔ عمران خان حکومت نے اس سلسلے میں ایک نئی طرز ایجاد کی ہے۔ وہ ایک طوفان کے پیچھے ایک اور طوفان بھیج دیتی ہے اس طرح کہ سب کی توجہ اس سمت مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے ساتھ ہی ایف آئی اے نے صحافی محسن بیگ کے گھر پر حملہ کردیا گیا۔ محسن بیگ کبھی عمران خان کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے مراد سعید اور عمران خان کے تعلق کے حوالے سے ریحام خان کی کتاب میں موجود کسی نازیبا بات کا حوالہ دیا تھا۔ یہ یقینا ایک انتہائی نا مناسب بات تھی۔ نجی محفل میں بھی شرفا ایسی گفتگو کے نزدیک نہیں جاتے۔ یوں ٹی وی چینل پر!! جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسی بیہودہ روش کے فیلڈ مارشل عمران خان ہیں۔ جن کی تقلید میں مریم نواز سے لے کر بلاول زرداری اور نجانے کس کس کے خلاف کیسی کیسی فضول باتیں کی گئیں، بیہودہ گوئی کی تمام حدیں پار کردی گئیں اور عمران خان خاموش رہے۔ کیا انہیں علم نہیں تھا۔ یہ وہ تیر ہے جو لوٹ کر بھی آتا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ قراردیا جارہا ہے۔ یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک اور کوشش ہے۔ 2014 میں جب ملک میں نواز شریف کی حکومت تھی عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 96ڈالر فی بیرل تھی لیکن پاکستان میں پٹرول کی قیمت 82روپے فی لیٹر تھی۔ آج 2022 میں عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 93ڈالر فی بیرل ہے لیکن پاکستان میں عمران خان کی حکومت کی بدانتظامیوں کی وجہ سے پٹرول کی قیمت 160روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ بھی اس اضافے کی ذمے دار ہے۔ ڈالر اور روپے کی قیمت کا تقابل درآمدی بل کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آئی ایم ایف سے کیا گیا نیا معاہدہ بھی اس کا ذمے دار ہے جس میں ہر مہینے پٹرول لیوی کی مد میں اضافہ کرنا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت تو ہمارے بس میں نہیں لیکن ان معاملات کا ذمے دار کون ہے؟
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان کی ایک فوٹو بھی ریلیز کی گئی ہے جس میں وہ درختوں کی چھائوں میں نماز ادا کررہے ہیں۔ ہر دور میں حکمران ایسی تصاویر کی نمائش ضروری خیال کرتے ہیں۔ پہلے حج بیت اللہ کے موقع پر کھینچی گئی تصاویر بہ اہتمام شائع کرائی جاتی تھیں اب معاملہ انفرادی نماز کی تشہیر تک آپہنچا ہے۔ پرویز مشرف اس بات کی تکرار کرتے نہیں تھکتے تھے کہ انہوں نے کعبہ کی چھت پر اذان دی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی حج کی بے پناہ خواہش رکھتے تھے لیکن صلیبی جنگوں اور امت کے معاملات نے انہیں اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ یہ سعادت حاصل کرسکیں۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ عمران خان نے معاملات کو اس حدتک بگاڑ دیا ہے کہ اصلاح کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا، سودی قرضے لے لے کر، مہنگا ئی کے طوفان برپا کر کے لوگوں کو بھو کا مار دیا ہے، پاکستان کو کسی دوسرے سیارے کا جہنم بنادیا ہے اس کے بعد کیا اس سے کوئی فرق پڑتا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، تہجد کی ادائیگی کرتے ہیں یا نہیں، حج کرتے ہیں یا نہیں، روزے رکھتے ہیں یا نہیں۔
مہنگائی اور اس کی وجوہات پر تو رو پیٹ کر صبر کیا جاسکتا ہے لیکن ان وزرائے کرام کا کیا کیا جائے جو زخموں پر نمک چھڑ کتے ہیں۔ خود وزیراعظم بے حدو حساب مہنگائی کے حوالے سے اکثر فرمایا کرتے تھے پاکستان اب بھی دنیا میں سب سے سستا ملک ہے۔ یہ ایک صریح دھوکا تھا کیونکہ مہنگائی کا موازنہ صرف اشیا کی قیمتوں کے تقابل سے نہیں کیا جاتا اس میں فی کس آمدنی کا موازنہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ نمک پاشی کی یہ رسم آج بھی دہرائی گئی ہے۔ احمد فراز کے فرزند شبلی فرازنے کہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو کم ازکم فیول استعمال کرنا چاہیے۔گویا کہہ رہے ہیں گھبرانا نہیں اور تیل بھروانا نہیں۔ گندم کی مہنگائی پر ایک وزیر مشورہ دے چکے ہیں کہ عوام روٹی کم کھائیں۔ چینی کی قیمتیں 150روپے فی کلو پہنچا کر بھی ایسا ہی مشورہ دیا گیا تھا۔ اگر آدھی رات کو سورج یکایک نکل آئے تو یہ وزراء عوام کو یہی کہیں گے ’’گھبرائیں نہیں، قیامت نہیں آرہی، یہ دیکھیں کیا حسین منظر ہے‘‘۔ اگر سورج زمین سے قریب ہوجائے، درجہ حرارت اس درجے پر پہنچ جائے، جس کی کبھی پیمائش نہیں کی گئی تب بھی یہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں گے ’’حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے آفتابی شعاعوں کایہ اضافی بونس ہے۔ کپڑے اتاریے اور ساحل پر جاکر انجوائے کریں‘‘۔