انصاف سے بے انصافی

412

کون نہیں چاہتا کہ عدالتوں کی عزت کی جائے، جج صاحبان کی تکریم کی جائے، ان کا نام بھی لیا جائے تو گردنیں احترام میں خم ہوجائیں۔ مہذب ہی نہیں غیر مہذب معاشروں میں بھی انصاف کرنے والوں کی، تمام نفع ونقصان سے بلند ہوکر رفعت کردار کا مظاہرہ کرنے والوں کی اور انصاف پسندوں کی تعظیم کی جاتی ہے۔ جج صاحبان ہی نہیں وہ لوگ بھی جو تعصب، اقربا پروری، ذاتی مفاد، وقتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر معاشرے کی خدمت کرتے ہیں تو لوگ نہ صرف ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ انہیں دیکھتے ہی احترام سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جسٹس کارنیلئس کی مثال موجود ہے جب وہ ہوٹل کی سیڑھیاں اُتر کر نیچے آتے تھے تو لوگ ان کے احترام میں نظریں جھکا لیتے تھے۔ عوام کو حقوق وانصاف دینے والوں کو اپنے احترام کے لیے کسی قانون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں حکومت سے درخواست نہیں کرنی پڑتی کہ ججوں کی عزت اور احترام کے لیے قانون سازی کی جائے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد انہیں اپنی حفاظت کے لیے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، حکومت سے سیکورٹی بڑھانے کی التجا نہیں کرنی پڑتی۔
عدالت عظمیٰ کے نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بار اور بنچ سے اپنے پہلے خطاب میں ججوں پر تنقید، ان کی ساکھ کو متاثر اور اسکنڈ لائز کرنے کے حوالے سے میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جہاں ججوں اور عدلیہ کو احترام کے لیے حکومت سے کچھ کرنے کی ضرورت پر زور دینا پڑے وہاں صرف نظام عدل ہی ناقص نہیں ہوتا جج صاحبان بھی قصور وار ہوتے ہیں۔ ججوں کا احترام ان کے فیصلوں سے ہوتا ہے، انصاف کی عملداری کے لیے ان کے کردار سے ہوتا ہے۔ جہاں جج یہ کردار ادا کرتے ہیں وہاں انہیں قوانین کی ضروت نہیں پڑتی بلکہ جو قوانین موجود ہوتے ہیں وہ انہیں بھی استعمال نہیں کرتے۔ کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ججوں کا احترام سخت گیر قوانین سے نہیں انصاف کی روح کے مطابق فیصلوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ آج اگر عدلیہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ بدنام اور تضحیک کا نشانہ ہے تو اس کی وجہ میڈیا کا رویہ نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار کے ایسے فیصلے ہیں جو میزان عدل پر پورے نہیں اُترتے۔ خود عدالتی حلقوں میں انہیں مشکوک قراردیا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں حکومتیں جمہوری ہوں یا آمرانہ وہ عوام کی دوست اور ہمدرد نہیں ہوتیں۔ دونوں ہی صورتوں میں ریاستی طاقت پر بااثر اور طاقتور اقلیتی گروہ قابض ہوتے ہیں۔ جس گروہ کے پاس مالی وسائل جتنے زیادہ ہوتے ہیں اقتدار کے کیک میں اس کا حصہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں مقتدر طبقے افواج پاکستان، جاگیردار، وڈیرے، بیورو کریٹس، تاجر، اسمگلر، کالا دھندہ کرنے والے اور قبضہ گروپس ہیں۔ ہر دور میں ریاستی طاقت ان ہی طبقوں کے پاس ہوتی ہے۔ سیاست دان بھی ان ہی طبقوں میں سے آتے ہیں اور ان ہی کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ یہی طبقات مقننہ میں اپنے حق میں قانون سازی کرتے ہیں۔ مہذب اور غیر مہذب دونوں ممالک میں عدالتیں ان گروہوں کی اپنے حق میں قانون سازی میں رکاوٹ نہیں ڈالتیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مہذب ممالک میں عدالتیں ان اقلیتی گروہوں کو ان کے اپنے بنائے گئے قوانین سے تجاوز نہیں کرنے دیتیں۔ انہیں ان قوانین کا پابند رکھتی ہیں۔ غیر مہذب ممالک میں یہ طبقات اپنے ہی بنائے ہوئے ان قوانین تو کیا کسی بھی طرح کے قوانین پر عمل نہیں کرتے۔ وہ ہر صورت میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اگر قوانین پر عمل کرنے سے ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے تو وہ ان قوانین پر عمل کرتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ ہر قانون کو توڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ پاکستانی عدالتیں پہلی اور دوسری دونوں صورتوں میں ان طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور ان کے حق میں فیصلے دیتی ہیں۔ وہ ان طبقات کے عوام کی گردنوں پر مسلط رہنے کو ممکن بناتی رہی ہیں۔ ان تمام طبقات کے خلاف جج صاحبان کے تنقیدی ریمارکس اور حوالے بظاہر کتنے ہی سخت ہوں لیکن اصل میں ان کی حیثیت شاعروں کی ایک دوسرے کو دی گئی داد جیسی ہوتی ہے۔ اگر ملا ابن العرب کے اس جملے کو جج صاحبان کے حوالے سے پڑھا جائے اور اس کی معنویت کو اسی حوالے سے سمجھا جائے تو بہت کچھ واضح ہوجاتا ہے۔ جملہ یہ ہے ’’شاعروں کی داد کا کوئی اعتبار نہیں وہ داد لینے کے لیے بھی داد دیا کرتے ہیں‘‘۔
کمزور طبقات یا عوام کے حقوق کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی عدلیہ دنیا کی بدترین عدلیہ ہے۔ بدعنوانی اور نااہلی میں بین الاقوامی انڈیکس میں 145نمبر پر لیکن بڑی بڑی تنخواہوں اور مراعات کے اعتبار سے دنیا کے چند ممالک میں سے ایک اور اگر پلاٹ سمیٹنے کے حوالے سے دیکھا جائے تو شاید دنیا بھر میں سب سے آگے۔ پاکستانی عدالتیں ہر کام کرتی ہیں سوائے غریبوں کو انصاف دینے کے۔ اس کی ایک وجہ تو پاکستان کے اسلامی آئین میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی وہ شقیں ہیں انگریز حکومت کا جن سے مقصد لوگوں کو انصاف دینا نہیں بلکہ مدتوں الجھائے رکھنا تھا اور دوسرے ججوں کی کرپشن جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وکیل کرنے سے بہتر ہے جج کرلیا جائے۔ ملک میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ عام آدمی انصاف مانگتے مانگتے قبر میں اُتر جاتا ہے لیکن اُسے انصاف نہیں ملتا۔ جج صاحبان عوام کو فوری انصاف دینے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتے۔ عدالتی نظام میں غریبوں کے ساتھ جو کچھ کیا جاتا ہے اسے دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عدلیہ کا ضمیر سوگیا ہے۔ ضمیر سویا نہیں بلکہ ضمیر مرچکا ہے اور سڑے سڑے بدبو دے رہا ہے۔
کون انکار کرسکتا ہے کہ جسٹس منیر اگر نظریۂ ضرورت کا سہارا نہ لیتے تو پاکستان کی تاریخ یہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ ہماری عدالتیں فوجی ڈکٹیٹروں کو آنکھیں بند کرکے اقتدار کے پروانے دیتی رہیں، فیاضی کا یہ عالم کہ بن مانگے آئین میں ترامیم کرنے کی اجازت دیتی رہیں جب کہ منتخب وزرائے اعظم کو پھانسی اور بدعنوانی اور بدنتظامی کے الزامات لگاکر عہدے سے فارغ کرتی رہیں۔ کون ہے جو آج کہہ سکتا ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت جائز اور نوازشریف کی رخصتی کا فیصلہ درست تھا۔ ہمارے بہت سے جج حضرات اپنی انا کی تسکین اور اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ایسے فیصلے دیتے رہے ہیں جن کی حقیقت کھل جانے کے بعد جج صاحبان کی توقیر نا انصافی اور ظلم کی ستائش کے مترادف ہے۔
میڈیا کے ساتھ اس ملک میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ہر دور میں افسوسناک رہا ہے لیکن عمران خان کے دور میں میڈیا کو جس طرح کچلا گیا، ہراساں کیا گیا، اس کے پر کترے گئے، ناروا پابندیاں عائد کی گئیں، آمدنی کے ذرائع بند کیے گئے، ناپسندیدہ صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوایا گیا، ان کے پروگرام بند کیے گئے، اغوا کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کو کنٹرول کیا گیا، ان کے مالکان پر جھوٹے مقدمات بناکر جیلوں میں رکھا گیا، ٹی وی چینلوں کو بند کیا گیا، پیمرا کی طرف سے نوٹس بھجوائے گئے، بھاری جرمانے کیے گئے، خبروں کو روکنے اور سنسر کرنے پر مجبور کیا گیا۔۔۔ جرنیلوں کی ڈکٹیٹر شپ میں بھی اس کی مثالیں نہیں ملتیں۔ عدلیہ نے اس دوران وہ کردار ادا نہیںکیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ عدلیہ نے اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر جس طرح عمران خان کو اقتدار میں لانے میں تعاون کیا، پچھلے ساڑھے تین سال سے جس طرح اس حکومت کا تحفظ کیا وہ اتنا ظاہر اور عریاں تھا کہ یہ تاثر مضبوط ہوا کہ عدلیہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرح اس حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ ریاست کا کوئی بھی ستون اگر انصاف سے بے انصافی کرے گا تو اس کی آبرو پر تو حرف آئے گا، اسے ملامت کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔