کیا جماعت اسلامی کے مطالبات پر عمل درآمد کیا جائے گا

543

۲۹ روز کی جدوجہد کے بعد جماعت اسلامی کا کراچی کے حقوق کے لیے دیا جانے والا احتجاجی دھرنا کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ہوگیا اس دھرنے نے سندھ حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا یقینا یہ جماعت اسلامی کی ایک بڑی کامیابی سمجھی جارہی ہے۔ حق دو کراچی کو یہ نعرہ بلند کر کے جماعت اسلامی پچھلے کئی سال سے کراچی کی تین کروڑ سے زائد آبادی کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جماعت اسلامی کے مرکزی آفس ادارہ نور حق کا دور کیا جس میں جماعت اسلامی کراچی کی قیادت سے ملاقات کی گئی اور جماعت اسلامی کے مطالبات کو تسلیم کیا گیا البتہ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت جماعت اسلامی کے مطالبات کو کتنی تیزی سے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے کیوں کہ ماضی گواہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت بھی یوٹرن کی ماسڑ رہی ہے اور گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات میں بھی جس طرح کا اختلاف سامنے آئے ہیں ان سے یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت جماعت اسلامی کے جائز مطالبات کو لولی پاپ کی نذر کر سکتی ہے۔ یقینا جماعت اسلامی کو بھی خدشے ہوگا جس کے لیے جماعت اسلامی کی قیادت ہر طرح سے ایک بار پھر سڑکوں کا رخ کرنے کو تیار ہوگی۔
ساتھ ہی اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں اور گزشتہ ۱۴ برس سے سندھ پر براجمان پیپلزپارٹی کی حکومت اور وفاقی حکومت نے اس شہر کو محرومیوں کے سو ا کچھ نہیں دیا۔ 2016 کے بعد ایم کیو ایم کا وجود اختتام کو تو پہنچ گیا مگر ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر اس پیڑ کی شاخیں آج بھی کراچی کے عوام کے بنیادی حقوق کے ساتھ بھونڈا مذاق کر رہی ہیں۔ چند روز پہلے وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے ہونے والا ایم کیو ایم کا احتجاج جس میں مظاہرین کے ساتھ جو پولیس گردی کی گئی اس کی ذمے داری جہاں سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے وہاں ہماری نظر میں اس کی ذمے داری ایم کیو ایم کی قیادت پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران ایم کیو ایم کی سینئر قیادت عامر خان اور وسیم اختر عوام کو پولیس گردی کے سامنے تنہا چھوڑ کر فرار ہو گئے، اور پھر حیران کن بات تو یہ ہوئی کہ جماعت اسلامی کی جیت کو ایم کیو ایم نے اپنی جیت قرار دیتے ہوئے کراچی کے مختلف علاقوں میں اپنی جیت کے بینر لگا کر یہ ثابت کر دیا کہ ایم کیو ایم کراچی کے عوام کے مسائل پر صرف اپنی سیاست چمکانے میں کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔
دوسری جانب ایک اور صاحب ہیں جو جماعت اسلامی کی جیت کا سہرا اپنے سر سجانے کے لیے احتجاج پر بیٹھے تھے۔ دراصل اس وقت کراچی کو ہر جماعت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اگر یہ تمام تر جماعتیں اس شہر کے جائز بنیادی حقوق پر سنجیدہ ہوتیں تو یقینا یہ تمام لوگ بھر پور انداز سے جماعت اسلامی کے کیپ میں موجود ہوتے اور پھر یہ موثر آواز شاید ۲۹ روز سے پہلے ہی سندھ حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیتی مگر ہمیشہ کی طرح کراچی کے عوام کے مسائل پر مفاد پرست سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست چمکائی اور جماعت اسلامی کی جیت کو اپنی سیاسی فتح قرار دینے کی ناکام کوشش کی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی نے پورے خلوص کے ساتھ اس شہر کراچی کے مسائل کی جنگ لڑی ہے اس بات کا اعتراف جماعت اسلامی کے مخالفین آج بھی کرتے ہیں کہ اس شہر کے مسائل کو جس طرح سے جماعت اسلامی کے میئر نعمت اللہ نے حل کرنے کی جدوجہد کی جس طرح سے اس شہر کے عوام کے بنیادی مسائل کو سیاسی اختلافات سے ہٹ کر اُجاگر کرتے ہوئے حل کرایا ایسا آج تک کوئی میئر نہیں کر سکا پچھلے میئر وسیم اختر کی کار کردگی کو دیکھا جائے تو یہ حضرت اپنے لوگوں کو نوکریاں فروخت کرنے میں سب سے آگے پائے گئے مگر افسوس کہ آج تک کوئی بھی ادارہ ان کی کرپشن پر لپ کشائی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
اب جماعت اسلامی کو اپنی جیت کو مستحکم رکھنے کے لیے مزید جدوجہد کرتے ہوئے کالے قانون کے خاتمے کے خلاف سندھ حکومت پر مزید دبائو ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی جتنی جلدی ہو سکے اس بل کو اسمبلی میں پیش کر کے کالے قانون کا خاتمہ کرنا ہوگا کیوں کہ پیپلزپارٹی اپنی سیاسی چالوں سے اس کالے قانون میں روکاوٹیں ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی سندھ حکومت کی یہ کوشش رہے گی کہ تاخیر کی جائے کیوں پیپلزپارٹی یہ جانتی ہے کہ جماعت اسلامی کے جائز مطالبات سے سندھ حکومت کے اختیارات میں واضح کمی آئے گی جو کسی طور سندھ حکومت کو منظور نہیں اس لیے اب پہلے سے زیادہ جماعت اسلامی کو موثر انداز سے اپنے مطالبات اور کراچی کے عوام کے جائز مقدمے کی جنگ لڑنا ہوگی تاکہ کراچی کو اس کا جائز حق دلایا جاسکے اور مفاد پرست سیاست کا خاتمہ کیا جاسکے۔