کشمیر کا مقدمہ

634

مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 910 روز سے فوجی محاصرہ جاری ہے۔ اس محاصرے کی وجہ سے وہاں مظلوم کشمیریوں پر عرصہ ٔ حیات جیسے تنگ کیا گیا ہے اس کی دنیا میں اگر کوئی دوسری مثال پیش کی جاسکتی ہے تو وہ فلسطین میں ہوگی جہاں صہیونیوں کی ناجائز ریاست نہتے فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے ہر ہتھکنڈا آزماتی ہے اور عالمی برادری اس حوالے سے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ وہاں بھارتی غاصب سیکورٹی فورسز کی طرف سے وادی کے مختلف علاقوں میں کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں لیکن بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کی طرف سے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ عالمی برادری کے اسی رویے کی وجہ سے بھارت کو ہلہ شیری ملتی ہے اور وہ گزرتے وقت کے ساتھ کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرتا ہے۔
5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کی شق 370 اور 35 اے کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا بھی ایسے ہی اقدامات میں سے ایک تھا اس حوالے سے حکومت پاکستان مسلسل عالمی برادری کا ضمیر جھنجھوڑتی اور اسے یہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود سب سے پرانا حل طلب قضیہ ہے۔ ہفتے کے روز چینی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم عمران خان نے اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مغرب نے سنکیانگ پر ایغور کے ساتھ چین کے رویے پر تنقید کی جو زمینی حقائق کے خلاف ہے لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم پر سب نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا انسانی حقوق کے حوالے سے دوہرا معیار ہے کیونکہ سنکیانگ کی بات تو کی جاتی ہے لیکن کشمیری کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ چین میں ایغور کے ساتھ ہونے برتائو پر مغرب کی جانب سے چین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ہم نے اپنے سفیر معین الحق کو وہاں بھیجا، انہوں نے معلومات حاصل کی تو پتا چلا کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔
کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جارہی ہے اور وہاں 90 لاکھ لوگوں کو بھارت نے کھلی جیل کی طرح قیدی بنایا ہوا ہے۔ عالمی برادری ان دونوں معاملات پر دوہرا معیار اپنا رہی ہے مقبوضہ وادی میں گزشتہ پون صدی سے بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف کالے قوانین کے تحت غاصب سیکورٹی فورسز کشمیریوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیتی ہیں اور پھر انہیں عقوبت خانوں میں ڈال کر مسلسل اذیت دی جاتی ہے۔ اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں جموں و کشمیر ہائیکورٹ نے تین افراد کی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندی کو کالعدم قرار دیدیا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، جسٹس سنجے دھر پر مشتمل ہائیکورٹ کے ایک بنچ نے محمد اسلم شیخ، عادل منظور میر اور احتشام الحق بٹ کی نظربندی کو چیلنج کرنے والی درخواستوںکی سماعت کرتے ہوئے حکام کو ہدایت دی کہ وہ انہیں فوری طورپر رہا کریں۔
ادھر، بھارت کے کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما ایڈووکیٹ دیویندر سنگھ بہل نے کہا کہ نریندر مودی کی فسطائی حکومت نے مقبوضہ وادی اور بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے حمایت اور تربیت یافتہ نریندر مودی بھارت کو ہندو ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2014ء میں نریندر مودی کے بھارت کا وزیراعظم بننے کے بعد وہاں انتہا پسند ہندو افراد اور تنظیموں کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور وہ ملک بھر میں اقلیتوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی خبریں مسلسل سامنے آتی رہتی ہیں جن میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں کے جواب میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی کوئی کارروائی نہیں کرتے جس سے اقلیتوں کو تحفظ کا احساس ہو لیکن بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے واضح ثبوتوں کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک نے پون صدی سے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق غصب کررکھے ہیں اور ان حقوق کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی موجود ہیں لیکن عالمی برادری کے بھارت کے لیے نرم رویے کی وجہ سے ان قراردادوں پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ممالک ہیں، لہٰذا بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کبھی حقیقت میں نہیں ڈھل سکتے لیکن ان کی وجہ سے خطے میں امن و امان کا قیام ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرا کے خطے میں حالات کی بہتری کے لیے کردار ادا کرے۔