حاشر فاروقی۔ یورپ کا موذن

547

۔1960ء کے عشرے میں پاکستان سے برطانیہ منتقل ہونے والے حاشر فاروقی دل و دماغ میں کیا منصوبہ لیے ہوئے تھے اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں صرف دنیا پرستی کا ماحول ہو اور اس کو پروان چڑھایا جاتا ہو وہاں جا کر ساری دنیا کے مسلمانوں کی ترجمانی کے لیے انگریزی زبان میں جریدے کا اجرا شاید اس وقت کے ہر سمجھدار فرد کے نزدیک مشق فضول، ناکام منصوبہ اور کبھی روبہ عمل نہ آنے والا کام تھا۔ لیکن سر پر دھن سوار تھی گھر کے افراد کو لے کر لندن منتقل ہونا وہاں کے اخراجات کا فرق سب کو معلوم ہے۔ بہرحال جاں گسل محنت کے بعد 1970ء کے عشرے میں وہ پھل سامنے آیا جس کے لیے وہ عرصے سے محنت کررہے تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے صحافی نہیں تھے کانپور زرعی کالج سے علم حیوانات میں گریجویشن کیا تھا۔ اور پاکستان کے محکمہ زراعت (اصلی) میں کئی برس اعلیٰ منصب پر کام کیا۔ پھر امپیریل کالج سے پی ایچ ڈی کے لیے لندن چلے گئے۔ امپیکٹ کا اجرا اسلام کی صحیح تصور اجاگر کرنے کے مقصد سے کیا گیا اسے پوری دنیا کے انگریزی قارئین تک پہنچایا گیا انہوں نے سب سے پہلے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نشانہ بنایا انسانیت کی ناقدری پر آواز اٹھائی اور بہت جلد مسلمانوں میں یہ شعور بیدار کیا کہ کمزور کی مدد کے لیے کھڑا ہونا ان کا کام ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ناکام، ناممکن اور کبھی برگ وبار نہ لانے والا منصوبہ برطانیہم مشرق وسطیٰم جنوبی ایشیا اور عرب دنیا میں مقبول انگریزی جریدہ بن گیا اس کی پہنچ مسلم حکمرانوں تک بھی اور یورپ کے حکمرانوں تک بھی۔ حاشر فاروقی جس مقصد کو دماغ میں بٹھا کر لندن گئے تھے اسے صرف دس سال سے بھی کم وقت میں حاصل کرلیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ فاروقی صاحب بیک وقت اخبار کے ایڈیٹر، گھر کے منتظم، مسلم کمیونٹی کے لیڈر ان کے رہنما اور ان کے لیے منارۂ نور سب ہی کچھ تھے۔ انہوں نے لندن میں نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ تیار کی جو وہاں صحافت کرسکیں۔ انہیں خبر لکھنا، مضمون لکھنا اور اہم بات کو اجاگر کرنے کے ڈھنگ سکھائے، زبان پر قابو رکھنا، کم الفاظ میں وسیع معانی تحریر کرنا یہ سب کچھ انہوں نے سکھایا۔ امپیکٹ انٹرنیشنل سے مضامین کا ترجمہ کرنے کے لیے صلاح الدین صاحب ہمیں بھی یاد کرتے تھے آج بھی یاد ہے کہ ایسے خوبصورت میگزین اس وقت ٹائم اور نیوز ویک بھی نہیں تھے۔ حاشر فاروقی نے تربیت کے ساتھ ساتھ میگزین کو وسعت بھی دی۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہوں گے کہ حاشر فاروقی 2003ء میں اپرٹس آف ویلز کے اسلامک فائونڈیشن لیز کے دورے کا اہتمام کروانے والوں میں شامل تھے۔ حاشر فاروقی ستائش اور صلے کی تمنا کے بغیر پرخلوص کام کرنے والے آدمی تھے ان کے چاہنے والے بہرحال اس امر کو جانتے تھے 2013ء میں مسلم نیوز کی جانب سے حاشر فاروقی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا۔ مسلم نیوز کے ایڈیٹر احمد وارثی نے اس موقع پر کہا کہ حاشر فاروقی نے ہمارا رشتہ مسلم دنیا سے جوڑا وہی ہمارا رابطہ تھے۔ برطانیہ جیسے معاشرے میں جہاں سنسنی خیزی کی بنیاد پر اخبارات چل رہے تھے انہوں نے ایک سنجیدہ سچی صحافت کی طرح ڈالی صحافیوں کو ابتدا میں نہایت کم معاوضہ ملتا تھا لیکن وہ مفت میں کام لینے کے بھی قائل نہیں تھے جو کام وہ کررہے تھے ایک مشن تھا۔
مسلمان ملکوں کے ذرائع ابلاغ کی ہمیشہ سے یہ مجبوری رہی ہے کہ وہ خبروں کے لیے مغربی ذرائع ابلاغ ہی پر انحصار کرتے ہیں اور وہ جس طرح کی خبریں تیار کرتے ہیں مسلم ملکوں کے ذرائع ابلاغ ان ہی کو شائع کرتے ہیں۔ حاشر فاروقی نے جب امپیکٹ شائع کیا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ پاکستان میں خصوصاً اور مسلم دنیا کے کئی ممالک میں ذرائع ابلاغ والے امپیکٹ کے تازہ شمارے کا انتظار کرتے۔ اس وقت ای میل اور جدید ذرائع استعمال نہیں ہوتے تھے کبھی فیکس پر اور کبھی ٹیلی پرنٹر پر تیز ترین خبر بھیج دی جاتی ورنہ ایک ہفتے بعد رسالہ پہنچتا تھا۔ اس کی وجہ سے مسلم ممالک کے سنجیدہ صحافتی اداروں کو مصدقہ خبروں کا ایک مستند ذریعہ حاصل ہوگیا تھا۔ اس قسم کا ایک ادارہ انٹرنیشنل اسلامک نیوز ایجنسی کے نام سے اسلامی سربراہ کانفرنس کے فیصلے کے نتیجے میں جون میں قائم ہوا تھا۔ لیکن ایک وقت آیا کہ اس کے دفتر میں دھول اڑ رہی تھی اور وہ سندھ کے کسی سرکاری اسکول کا سا منظر پیش کررہا تھا۔ عمارت خستہ حال تھی اور اندر آنے جانے میں کوئی روک ٹوک نہیں تھا۔ لیکن امپیکٹ نے 1970ء سے 1980ء کے عشرے تک یہ کمی نہ صرف پوری کی بلکہ بہترین انداز میں کام کیا۔ آج کل بہت سارے ادارے اور نیوز ایجنسیاں اسلامی ناموں اور اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کے نام پر کام کررہی ہیں لیکن امپیکٹ نے نہایت سنجیدگی سے اپنا کام جاری رکھا۔ اس جریدے کو طویل عرصے تک خسارہ ہوا اور اسے بند کرنا پڑا۔ یہ کام پاکستان سمیت ہر جگہ ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
مظفر اعجاز
سنجیدہ صحافت کو لوگ اپنا نہیں سمجھتے اور رنگینی میں کبھی کوئی چھوٹا سا ٹکڑا اپنے حق میں نظر آیا تو واہ واہ کرکے اسے ہی اپنا ترجمان سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ روش آج بھی جاری ہے۔ امپیکٹ نے تحقیقی رپورٹنگ اس وقت کی جب آدھی دنیا آہنی پردے میں روس کے زیر اثر تھی تو باقی آدھی دنیا جھوٹ اور ڈالر کی چمک کے زیر اثر تھی۔ لیکن امپیکٹ میں سوویت یونین کے مسلم علاقوں کی خبریں مشرق وسطیٰ اور افریقی ڈکٹیٹروں کے بارے میں خبریں ان ممالک سے امپیکٹ کے نمائندے یا اسٹینگرز بذریعہ ڈاک بھیج دیا کرتے تھے۔ امپیکٹ کی خبریں اور دیگر سے بین الاقوامی جریدوں اور کتابوں میں حوالے کے طور پر بھی شائع ہوتے رہے۔ جسارت میں تو باقاعدگی سے ہر ماہ امپیکٹ سے مضامین ترجمہ کیے جاتے تھے۔ صلاح الدین صاحب کے بعد یہ سلسلہ رفتہ رفتہ کم اور پھر ختم ہوگیا۔
ایک زمانے میں جب امپیکٹ بند ہوئے کافی دن ہوچکے تھے ہم نے فاروقی صاحب تک پیغام پہنچایا کہ ہم کراچی سے دو زبانوں میں امپیکٹ شائع کرنے کو تیار ہیں تو انہوں نے جواب بھیجا کہ اس نام سے کہیں بھی اشاعت کی تو امپیکٹ کے تمام واجبات ادا کرنے پڑیں گے۔ ایسا کام نہ کرنا، اس طرح کا کوئی اور رسالہ نکال لو۔ فاران کلب کے سیکرٹری ندیم اقبال کی وساطت سے ان سے رابطہ رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ان کی کتابوں کے ذخیرے کے عطیے کی بنیاد پر فاران کلب کی لائبریری سے متعلق ایک مضمون ہم نے لکھا ان کو پسند آیا پھر وہ غائب ہوگیا۔ پھر تو وہ اس مضمون کو تلاش کرتے رہے۔ ندیم اقبال نے بتایا کہ وہ کسی بات کے بارے میں معلومات کا ارادہ رکھتے تو نہایت مستقل مزاجی سے اس کے پیچھے لگ جاتے۔ ایک مرتبہ مرحوم ادریس بختیار نے ایک مضمون ہیرالڈ میں تحریر کیا تو بار بار تقاضا کرکے اس کی کاپی منگوائی۔ اور اس کا جواب لکھنے کا ارادہ کیا۔ لندن میں ان کے پاس مصروفیت نہیں رہی لیکن پرانے بزرگوں کی بیٹھک ہفتے وار ہوتی رہتی تھی۔
آج کل کے صحافیوں کو یہ چیز سیکھنی ہوگی کہ تحقیق یا تحقیقی رپورٹنگ کیا ہوتی ہے۔ اب تو جو خبر جیسی آئی اسی طرح فارورڈ کردی جاتی ہے۔ بہت کم لوگ اس کی تصدیق کی زحمت کرتے ہیں۔ اس وقت تو وہ وسائل بھی نہیں تھے جو آج کل ہیں۔ فاروقی صاحب نے اپنے دفتر ہی میں خزانہ جمع کررکھا تھا۔ کوئی بھی تجزیہ لکھنا ہو تو اس سے متعلق مصدقہ خبر نکالتے تاریخ حوالہ سب کچھ شامل کرتے پھر تحریر کرتے تھے۔ اب تو معلومات تک رسائی کے درجنوں طریقے موجود ہیں لیکن صحافی عموماً تصدیق کی زحمت نہیں کرتے۔ پولیس ہی کو لے لیں اس کی جانب سے جتنی خبریں آتی ہیں ان میں چھاپے اور گرفتاری کے ساتھ ہی ملزم کے بجائے مجرم را کا ایجنٹ، القاعدہ سے تعلق، داعش کا ماسٹر مائنڈ وغیرہ لکھا جاتا ہے اور بیش تر اخبارات اور رپورٹرز اِسے جوں کا توں شائع کرتے ہیں۔ خود ہی اسے دہشت گرد لکھتے ہیں۔ پھر دو ڈھائی سال کے مقدمے کے بعد وہ بے قصور ثابت ہوتا ہے۔ چھاپا مارنے والا ترقی لے کر کسی اور ادارے میں جاچکا ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک محکمے کی خبریں ہیں ہر جگہ یہی حال ہے۔ ایک اسلامی اخبار نکالنا پاکستان میں مشکل ہے تو یورپ میں ایسا اخبار نکالنا کس قدر مشکل ہوگا۔ وہاں تو حکومتی گرانٹ بہت ملتی ہے لیکن حاشر فاروقی نے کوئی حکومتی گرانٹ قبول نہیں کی کیوں کہ اس کے بعد جریدے کی خود مختاری ختم ہوجاتی۔ یہ بات آئی ایم ایف اور عالمی بینک یا مختلف ممالک سے قرضے لے کر ملک چلانے کی کوشش کرنے والوں کو سیکھنی چاہیے۔ انہوں نے کسی سرکاری فنڈ اور گرانٹ کی درخواست ہی نہیں دی۔ پیشکشوں کو بھی رد کیا۔ ذاتی طور پر سعودی عرب میں اخبار کی ادارت کی پیشکش مسترد کردی کیوں کہ شرط یہ تھی کہ امپیکٹ بند کرکے آنا ہوگا۔ حاشر فاروقی کے تعلقات عرب شہزادوں، حکمرانوں، برطانوی وزرا اور پاکستانی حکمرانوں سے بھی رہے لیکن کبھی کسی سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ان کے اپنے گھر کا معاملہ یہ تھا کہ بچوں کی زبردست تربیت کی۔ چاروں بچے، تین بیٹے اور بیٹی سب خدمت گزار اور دین دار ہیں۔ حاشر فاروقی جب لندن گئے اس وقت کوئی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ برطانیہ میں اسلام کے لیے کام کیسے ہوگا۔ وہ یوکے اسلامک مشن، مسلم ایجوکیشنل ٹرسٹ، مسلم ایڈ، اسلامک فائونڈیشن اور مسلم کونسل آف برٹن کے بانیوں میں سے تھے۔ اگر ہم پاکستان میں عبدالستار افغانی کی فقیرانہ زندگی کی بات کرتے ہیں کہ دو مرتبہ میئر، رکن قومی اسمبلی، بلدیہ اور حکومت کی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین واٹر بورڈ اور کے ڈی اے سمیت درجنوں اداروں کے چیئرمین رہے اور 80 گز کے فلیٹ ہی میں آخر تک رہے۔ یہی کام حاشر فاروقی صاحب نے کیا وہ یورپ میں پیسہ بنانے نہیں گئے تھے۔ اذان دینے گئے تھے ان کی اذان پر لاکھوں لوگوں نے لبیک کہا۔ اس لیے وہ اپنا کام کرتے رہے۔
مجھے ہے حکم اذاں کے مصداق اپنا کام نہیں چھوڑا۔
ان کی کیفیت عملاً وہی تھی جو علامہ اقبال نے شکوہ میں یہاں کی۔
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آرائوں میں
خشکیوں میں کبھی لڑے کبھی دریائوں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کبھی افریقا کے تپتے ہوئے صحرائوں میں
یورپ کے کلیسائوں کا موذن چلا گیا اس کے اذاں پر لبیک کہنے والوں کی بڑی تعداد اب وہ کام کررہی ہے۔ بہت سوں کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ یہ بوڑھا آدمی کون ہے۔ ان کے بارے میں نئی نسل کو بتانے کی ضرورت ہے۔ ابھی وہاں اور بھی بزرگ ہیں ان کی شخصیت محنت، کارناموں اور کام سے اپنی نئی نسل اور پرانی نسل کو بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اذانیں اب تو پاکستان میں دینے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے اور جو لوگ یہ کام کررہے ہیں ان کو ابھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حاشر فاروقی اپنے حصے کا کام کرگئے اور یہ بہت بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے ہم صرف اس راہ پر چلتے رہیں تو بھی سعادت کی بات ہوگی۔