افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

481

فَقَر کے معنی
فقر کے لغوی معنی تو احتیاج کے ہیں۔ لیکن اہل معرفت کے نزدیک اس سے مراد مفلسی اور فاقہ کشی نہیں ہے، بلکہ خدا کے سوا ہر ایک سے بے نیازی ہے۔ جو شخص اپنی حاجت مندی کو غیر اللہ کے سامنے پیش کرے اور جسے غنا کی حرص دوسروں کے آگے سر جھکانے اور ہاتھ پھیلانے پر آمادہ کرے وہ لغوی حیثیت سے فقیر ہوسکتا ہے، مگر نگاہِ عارف میں دریوزہ گر ہے، فقیر نہیں ہے۔ حقیقی فقیر وہ ہے جس کا اعتماد ہر حالت میں اللہ پر ہو۔ جو مخلوق کے مقابلے میں خود دار اور خالق کے آگے بندۂ عاجز ہو۔ خالق جو کچھ بھی دے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، اس پر قانع و شاکر رہے اور مخلوق کی دولت و جاہ کو نگاہ بھر کر بھی نہ دیکھے۔ وہ اللہ کا فقیر ہوتا ہے نہ کہ بندوں کا۔
(ترجمان القرآن، اپریل 1977ء)
٭…٭…٭
تقلید
آپ تقلید جامد اور اندھی پیروی کی جتنی چاہیں برائی کرسکتے ہیں۔ سب بجا اور درست آپ یہ کہنے کا حق بھی رکھتے ہیں کہ ولایت، امامت، اجتہاد اور علم و فضیلت بزرگوں پر ختم نہیں ہوگئیں۔ آج بھی یہ سب مرتبے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن تقلید کی مخالفت اور اجتہاد کا شوق اگر اس حد تک پہنچ جائے کہ بزرگان سلف کے خلاف ایک ضد سی پیدا ہوجائے، اور ان کی بنائی ہوئی عمارتوں کو خواہ مخواہ ڈھا دینا ہی ضروری سمجھ لیا جائے، اور محض نئی بات پیدا کرنے کی خاطر جدت طرازیاں کی جائیں، اور لوگ اہلیت کے بغیر اجتہاد شروع کردیں اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہؐ کو بازیچہ اطفال بنا لیں، تو حق یہ ہے کہ یہ گمراہی اندھی تقلید گمراہی سے بدر جہا زیادہ سخت اور دین کے حق میں بدر جہا زیادہ نقصان دہ ہے۔ مقلدین تو صرف اتنا ہی کرتے ہیں کہ جو دیواریں ان کے اسلاف اٹھا گئے ہیں ان پر زمانے کی ضروریات کے مطابق کسی مزید تعمیر کا اضافہ نہیں کرتے۔ لیکن وہ پچھلی عمارت کو جوں کا توں قائم تو رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے یہ جدت پسند حضرات پچھلی دیواروں کو بھی ڈھا دیتے ہیں اور خود اپنے من مانے طرز پر نئی عمارت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ذہنیت اگر فروغ پا جائے تو اندیشہ ہے کہ پورا دین ہی مسخ ہوجائے گا اور نہ معلوم اس کی شکل کیا سے کیا بنا کر رکھ دی جائے گی۔
(ترجمان القرآن، اگست43ء)
٭…٭…٭
اقامت دین اور معجزات
میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ ہمارے ہم خیال ہیں وہ عہد صحابہ کو مجرد کرامتوں اور معجزات کی اسپرٹ میں سمجھنے کے بجائے فطری اسباب کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں۔ ورنہ ہر وہ چیز جو اس دور میں پیدا ہوئی تھی اس کے متعلق ہم چاہیں گے کہ بس وہ چشم زدن میں کرامت کے طور پر رونما ہوجائے اور جب وہ اس طرح رونما نہ ہوسکے گی تو ہمارے دل ٹوٹ جائیں گے۔ اس ذہنیت کے ساتھ ہم کبھی ان فطری اسباب کو فراہم کرنے کی کوشش کریں گے ہی نہیں جن سے وہ کیفیات یا کم ازکم اس نوعیت کو کیفیات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ملیے اور مل کر کام کیجیے اور مل کر اس راہ میں مصیبتیں اْٹھائے۔ پھر اس طرز کی رفاقت کا ظہور نہ ہو تو البتہ آپ کو حق ہے کہ اس خدمت کی انجام دہی کے لیے معجزے کی شرط لگائیں اور پھر اپنے خدا سے مطالبہ کریں کہ اگر یہ خدمت ہم سے لینا چاہتا ہے تو معجزے صادر کرے۔
(ترجمان القرآن، مئی جون 44ء)
٭…٭…٭