اس نظام کو اصلاح کی نہیں تدفین کی ضرورت ہے

705

اس مزدور عورت کے لہجے میں طیش، نفرت اور چنگاریاں بھری ہوئی تھیں۔ وہ وحشیانہ غصے سے ان لوگوں پر جھپٹنا چاہتی تھی جو اس کی بدحالی کے ذمے دار تھے۔ ’’ابھی اتنی مہنگائی ہوگئی ہے کہ 120 والا گھی کا پیکٹ 340روپے کا ہوگیا۔ کہاں سے یہ آئے گا؟ غریبوں کو مار رہے ہو۔ غریبوں کے منہ سے روٹی چھین رہے ہو۔ لوگ کہتے ہیں نواز شریف چور تھا لیکن ہمیں عوام کو اس نے سکون دیا تھا۔ اس کے دور میں پاکستان ایسا تھا؟۔ میں کہاں سے لاکر دوں، گھر کا کرایہ دوں، بجلی کا بل دوں، میں کیا کروں، کس کے سامنے روئوں۔ عمران خان سے میں کہتی ہوں خدا سے ڈر۔ انسانوں کی بددعا سے ڈر۔ پانچ دن سے بچے بھوکے تھے۔ میں کاغذ اور کچرا چن رہی ہوں۔ تیرے دل میں خدا کاترس نہیں آتا۔ تو خدا کے بندوں کی بے حرمتی کرے گا۔ تجھے خدا کیسے کامیاب کرے گا‘‘۔ یہ صرف ایک غریب کا المیہ نہیں ہے۔ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام اس دروازے پر کھڑے ہیں جہاں سے حکمران طبقے کے پھینکے ہوئے ٹکڑے انہیں بھیک مل جاتے ہیں۔ گوشت کی دکانوں کے درمیان بلیوں کو جس طرح ایک دو بوٹیاں اور چھیچھڑے مل جاتے ہیں وہی حال غریبوں کا ہے جب کہ سارا گوشت چند لاکھ حکمران طبقے اور امراء کے ڈیپ فریزروں میں بھرجاتا ہے۔ عوام اس نظام کا سب سے آخری اور حقیر جزو ہیںجن کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ لوگ ایک ناقابل تسخیر غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن اب ان کے اعصاب جواب دیتے جارہے ہیں۔
یہ خیال کہ عمران خان اور ان کی حکومت تنہا عوام پر مصیبتوں کی ذمے دارہے، درست نہیں ہے۔ فوجی قیادت کا بھی اس میں کردار ہے۔ اپوزیشن بھی اپنے لیے موافق حالات پیدا کرنے کے لیے عوام کو پیسنے اور ان کا خون نچوڑنے میں شامل ہے۔ سب اندر سے ایک ہیں۔ سب عوام دشمن ہیں۔ غربت، بے روزگاری، کم آمدنی اور کمر توڑ مہنگائی کے عذابوں میں لوگ سسک رہے ہیں مزید بوجھ انہیں پیس کررکھ دے گا لیکن منی بجٹ کی صورت عوام کو کچلنے اور دفن کرنے میں حکومت، فوج اور اپوزیشن سب متحد ہیں۔ کس آسانی سے منی بجٹ منظور کرلیا گیا ہے۔ 150اشیا کی قیمتوں میں 17فی صد اضافہ کردیاگیا۔ اس میں کسی کو شک ہے کہ 343ارب روپے کا یہ ڈاکا غریبوں کے گھروں میں ماتم بچھادے گا لیکن حکمران طبقوں نے آسمان لوگوں کا رہنے دیا ہے نہ زمین اور نہ وہ سب کچھ جوان کے درمیان میں سوائے اس سیاہ اور غیر انسانی لکیر کے جن سے لوگوں کی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔ کیا فوج کی مرضی کے بغیر حکومت اسمبلی میں اکثریت ثابت کرسکتی تھی۔ اپوزیشن کا احتجاج ڈرامے بازی سے زیادہ کوئی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بھی چاہتی تھی کہ منی بجٹ منظور ہو، حکومت مزید بدنام ہو۔ لوگ مرتے ہیں تو مریں لیکن اقتدار کے ایوانوں سے ان کے فاصلے کم ہوجائیں۔ دلیل دی جارہی ہے کہ منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کی تحویل میں دینا قومی سلامتی کا تقاضا ہے۔ شرم آنی چاہیے ان لوگوں کو جو یہ باتیں کررہے ہیں۔ پاکستان کے پاس کیا نہیں ہے؟ لیکن فوجی اور سیاسی قیادت نے یہ حال کردیا ہے کہ اس کی سلامتی آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر سے مشروط ہوگئی ہے۔ ٹھیک ہے تو پھر سب مل کر اس بوجھ کو اٹھا ئیں۔ فوج اپنے بجٹ میں تخفیف کرے، حکومت اپنے اللے تللوں میں کمی لائے، بیورو کریسی وزیر وزراء مشیر اراکین اسمبلی کی فوج جن میں سے ہر ایک کروڑ پتی ارب پتی ہے اپنی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں کمی کا اعلان کریں۔ سارا بوجھ عوام پر کیوں؟ جن کی زندگیوں میں پہلے ہی بھوک اور اندھیروں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک مثال تو قائم ہو عوام اور ملک سے محبت کی۔
یہ نظام اکثریت کی ڈکٹیٹر شپ، مطلق العنانیت، ظلم اور سفاکی کا نظام ہے۔ وہ اکثریت نہیں جو برسرزمین کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگ رہی ہے بلکہ وہ اکثریت جو الیکشن میں دھاندلی، بد معاشی اور دولت کے بل بوتے پر اسمبلیوں میں جنم لیتی ہے اور پھر اپنے مفاد میں قانون سازی کرتی ہے۔ اکثریت کے جبر کے اوزار کو استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں منی بجٹ منظور کرالیا گیا۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے بلدیاتی کالا قانون منظور کرالیا۔ بیس دن ہونے کو آرہے ہیں شدید سردی کے باوجود جماعت اسلامی دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہے۔ اہل کراچی کے احساس محرومی نے جن گہری گھاٹیوں اور نا امیدی اور ناکامی کے پہاڑوں کو بلند کیا ہے جماعت اسلامی تنہا ان کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ جنرل ایوب خان کے قدم بقدم پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے بھٹوکی سربراہی میں اہل کراچی سے نفرتوں کے جو سلسلے دراز کیے تھے انہوں نے اس شہر کو خس وخاشاک میں تبدیل کردیا، جنرل ضیاالحق نے اس شہر پر جس جماعت کو مسلط کیا اس نے شہر کو مقتل بنادیا، دو عشروں سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اس شہر کو میل کچیل اور غلاظت کا ڈھیر بنادیا ہے اس پر بھی صبر نہیں آرہا کہ اس کالے قانون کا اہتمام کرنا بھی ضروری سمجھا گیا۔ جماعت اسلامی کے ایک ایک مطالبے کا جائزہ لے لیجیے انصاف اور اس حق کی بھرپور گونج ہے جس کے ملنے سے اہل کراچی کی دشت نوردی اور محرومیوں کا ازالہ ہوسکتا ہے لیکن اکثریت کا غضب ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کل بھی اکثریت کی بنیاد پرکوٹا سسٹم اور نجانے کون کون سے قانون مسلط کیے گئے تھے اور آئندہ بھی اسی طور قانون سازی ہوتی رہے گی کیونکہ یہ اکثریت کا جائز جمہوری حق ہے۔ کروڑوں لوگوں کا استیصال ہو، احساس محرومی کے نہ بجھنے والے شعلے بھڑکیں، اس نظام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہی حال اہل بلوچستان کا ہے۔ وہ ہمیشہ ظلم اور احساس محرومی کا شکار رہیں گے کیونکہ وہ کبھی وفاقی سطح پر اپنے حق میں قانون سازی کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسلام نے اسی لیے قانون سازی کا اختیار انسانوں کو نہیں دیا۔ حکمران صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قوانین کو نافذ کرتے ہیںجو اکثریت کا بھی رب ہے اور اقلیت کا بھی۔
دنیا بھر میں اس نظام میں غریبوں اور کمزور عوام کے لیے کچھ نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کا، امریکا میں کالوں کا حال دیکھ لیجیے۔ یہ نظام صرف طاقتوروں کو تحفظ دیتا ہے۔
اسلام آباد مارگلہ نیشنل پارک کسی دوسرے سیارے پر واقع نہیں کہ منال ریسٹورنٹ کسی کو نظر نہیں آیا8ہزار 68ایکڑ زمین غیرقانونی طور پر آرمی کو الاٹ کردی گئی کسی کو تشویش نہیں ہوئی۔ اسی طرح نیوی گالف کورس کے غیرقانوی ہونے اور سیل کرنے کا فیصلہ۔ جسٹس اطہر من اللہ کی جس قدر تحسین کی جائے کم ہے لیکن اس نظام میں اتنے بلیک ہولز ہیں کہ کسی ایک جج کے چند فیصلوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ شاہزیب قتل کیس کا مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کئی ماہ سے ایک پرائیوٹ اسپتال میں اس ملک کے نظام عدل پر ٹھٹے لگا رہاتھا وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں مجھے خبر نہیں تھی محکمہ صحت سندھ کا کہنا ہے کہ اس منتقلی کے حوالے سے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ اسپتال بھیجنے کا فیصلہ کسی بورڈ نے نہیں کیا لیکن سب طرف سناٹا کیونکہ معاملہ ایک طاقتور شخص کا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جام اویس بجڑ کے فارم ہائوس میں قتل کیے گئے ناظم جو کھیو کے مقدمے میں جج کی جانب سے ضمانت مسترد کیے جانے کے بعد نامزد پانچوں ملزمان با آسانی احاطہ عدالت سے فرار ہوگئے۔ پولیس نے انہیں روکنے کی ادنیٰ سی کوشش بھی نہیں کی۔ جس ملک میں وزیر اعظم اپنی کہی گئی ایک ایک بات سے صبح شام مکرتا ہو وہاں حریم شاہ کی باتوں کو اس بنیاد پررد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی بات سے مکر گئی یا وہ ایک ٹک ٹاکر ہے یا وہ۔۔۔ حریم شاہ نے کرنسی کی غیر قانونی منتقلی، پاکستانی پاسپورٹ کی بے وقعتی، دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قدر، مری اور برطانیہ کی سردی میں اموات کے تقابل اور طاقتوروں کے سامنے قانون کی بے بسی کے حوالے سے اس نظام کو جس طرح ننگا کیا ہے کیا اس کی باتیں غلط ہیں؟ کون ہے جو اس کی باتوں کی تردید کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگلے الیکشن اس نظام کی خرابیوں کا علاج ہیں نہ عمران خان کی رخصتی اور نہ کسی پرانے چہرے کی پھر آمد۔ اس نظام کو تبدیلی کی نہیں تدفین کی ضرورت ہے۔ صرف اور صرف اسلام اور خلافت راشدہ کا نظام ہمارے مسائل کا حل ہے۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں دنیا نے ایک ہزار سال سے زائد اسلامی نظام کو برتا، دیکھا اور اس کے ثمرات سے فیض حاصل کیا ہے۔