صحت کارڈ اور نجی کمپنیوں کی رعایا

870

اس طرح تو کوئی ریوڑیاں بھی نہیں با نٹتا جس طرح وزیراعظم عمران خان اربوں روپے کے ریلیف پیکیجز بانٹ رہے ہیں۔ 5ستمبر 2020 کو انہوں نے کراچی کے لیے1100ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس سے پہلے مارچ 2019 میں انہوں نے کراچی کے لیے 18ترقیاتی منصوبوں کی مد میں 162ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ 15اپریل 2021 کو انہوں نے سندھ کے لیے 440ارب روپے کے علٰیحدہ پیکیج کا اعلان کیا۔ ان پیکیجوں پر کام شروع ہوا یا نہیں، کراچی اور سندھ میں کیا خوشحالی آئی ان سوالوں پر غور کرنے سے بہتر ہے کہ آپ دماغ لگائیں اور سوچیں کہ آپ کے ماموں کی بہن کی ساس کے بیٹے کی ساس کے پوتے کی بیوی کی ساس کا شوہر آپ کا کیا لگا۔ دیگر صوبوں کے لیے اعلان کیے گئے منصوبوں کا بھی اگر یک سطری ہی سہی ذکرکیا گیا تو کالم پھرکالم نہیں رہے گا کتاب بن جائے گا لہٰذا ان سے گریز۔ آگے کچھ سنجیدہ باتیں کرنی ہیں، ان سے پہلے ایک لطیفہ سن لیجیے: سلمان بن ہاشم نے اپنے سالار اعظم جعفر بن پاشا سے پوچھا کہ دینے والے کا ہاتھ ہمیشہ اوپر اور لینے والے کا ہاتھ ہمیشہ نیچے ہوتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے جس میں لینے والے کا ہاتھ اوپر اور دینے والے کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے۔ پاشا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ زارو قطار روتے اور ہچکیاں لیتے ہوئے بولا ’’آقا میں نے دیکھا ہے جب کوئی کسی سے نسوار کی چٹکی لیتا ہے تو لینے والے کا ہاتھ اوپر اور دینے والے کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے‘‘۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا کوکین کے لینے دینے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟
یکم جنوری 2022 سے حکومت پنجاب نے صوبے کے 3کروڑ 11لا کھ خاندانوں کے لیے نیا پاکستان صحت کارڈ کا اجرا کیا۔ وزیراعظم عمران خان تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس انقلابی پروگرام کے بارے میں انہوں نے بتا یا کہ ’’صوبے بھر کی مکمل آبادی کو فی گھرانہ 10لاکھ روپے سالانہ تک علاج معالجے اور صحت کی معیاری سہو لتوں کے لیے ملیں گے۔ اب وہ سرکاری اور نجی اسپتالوں سے 10لاکھ روپے تک کا مفت علاج کراسکیں گے‘‘۔ یہ ایک طرح کی ہیلتھ انشورنس ہوگی۔ ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ ایک ایسا ملک جو قرضوں پر چل رہا ہے وہاں اتنی کثیر رقم کہاں سے آئے گی۔ بجٹ پر بہت دبائو پڑے گا۔ انشورنس کی رقم کی ادائیگی ہی ایک چیلنج بن جائے گی۔ یہ ایک غیرسنجیدہ منصوبہ ہے جس کا مقصد آئندہ الیکشن میں کارکردگی کا ڈھول پیٹنا ہے۔ اس منصوبہ کے لیے پنجاب حکومت انشورنس کمپنیوں کو 400ارب روپے ادا کرے گی، جبکہ 2021 میں پنجاب کا تمام صحت کا بجٹ ہی 370 ارب روپے تھا۔ یہ ریلیف پیکیج نہیں محض ایک سیاسی نعرہ ہے۔ آئندہ آنے والی حکومتوں کا اس منصوبے کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ صحت کارڈ منصوبہ کوئی انقلابی قدم ہے حالا نکہ درحقیقت یہ صحت کی نجکاری کی ابتدا ہے۔ جس طرح تعلیم، بجلی، گیس اور دیگر شعبوں کو پرائیوٹ سیکٹر کو سونپ کر حکومت اپنی ذمے داری سے فارغ ہوچکی ہے اسی طرح صحت کارڈ کے ذریعے حکومت صحت کے شعبے کی نجکاری کرکے جوابدہی سے بچنا چاہتی ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے حکومت اپنی ذمے داری کئی گنا مہنگے داموں پرائیوٹ اسپتالوں کو منتقل کررہی ہے جس سے انشورنس کمپنیاں بھی دوگنا چوگنا منافع کمائیں گی۔ صحت کارڈ کے لیے 400ارب روپے کہاں سے آئیں گے۔ یہ چار سو ارب روپے عوام سے ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیے جائیں گے جو بعد میں انشورنس کمپنیوں اور نجی اسپتالوں کی تجوریوں میں ڈال دیے جائیںگے۔ یوں بالآخر بھگتنا عوام ہی کو پڑے گا۔ جن پر ٹیکسوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کردیا جائے گا۔
صحت کارڈ جیسے منصوبے سرمایہ دار ممالک کی استعماری عادات کا تسلسل ہے جس میں وہ اپنے ہی عوام کا خون چوستی نظر آتی ہیں۔ یہ سرمایہ دار ملکوں کے صحت کے ماڈل کی ایک نقل ہے۔ امریکا میں صحت کی انشورنس نجی شعبے کے ہاتھ میں ہے۔ وہاں نجی اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کا یہ عالم ہے کہ یونی ورسٹی آف پنسلوانیا کے اسپتال میں حمل کے ٹیسٹ کی قیمت مختلف انشورنس کمپنیوں کے لیے 18سے 93ڈالر تک ہے۔ لیکن اگر کوئی ہیلتھ انشورنس کے بغیر یہ ٹیسٹ کروائے تو اس کی قیمت صرف 10ڈالر ہے۔ یہی حال خیبر پختون خوا میں ہوا جہاں کورونا میں پرائیوٹ اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لیے ایک رات کے 10 سے 50 ہزار روپے چارج کیے گئے جب کہ سرکاری اسپتالوں میں یہی علاج مفت کیا گیا یا محض چند سو روپے وصول کیے گئے۔ پنجاب میں صحت کارڈ کی سہولت کا آغاز ساہیوال ڈویژن اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن سے پہلے ہی ہوچکا ہے۔ ضلع پاکپتن کے ایک شہری نذیر احمد نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہوں نے رواں ماہ ایک نجی اسپتال میں اپنے والد کا علاج کرایا تھا۔ زاہد نذیر کے بقول اُنہوں نے صحت انصاف کارڈ کے استعمال سے قبل اسپتال انتظامیہ سے علاج اور آپریشن کے اخراجات پوچھے تو اُنہوں نے پندرہ ہزار بتائے تھے۔ زاہد نذیر کے مطابق اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد جب اُنہوں نے صحت انصاف کارڈ میں بقیہ رقم دیکھی تو اُنہیں معلوم ہوا کہ اُن کے والد کے کارڈ سے 36 ہزار روپے کاٹے جا چکے ہیں جس کی شکایت اُنہوں نے محکمہ صحت کی ہیلپ لائن پر درج کرا دی ہے۔
ہیلتھ انشورنس کا پروگرام آئین پاکستان کے بھی خلاف ہے۔ آئین پاکستان کے تحت صحت، تعلیم اور انسانی زندگیوں کا تحفظ حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے۔ کراچی میں کے الیکٹرک کی صورت انسانی زندگیوں کے حوالے سے اس کا مظا ہرہ دیکھا جاچکا ہے۔ کراچی میں چند سال پہلے موسم گرما میں ہیٹ اسٹروک کے نتیجے میں اتنی اموات ہوئی تھیں کہ سرد خانوں میں گنجائش ختم ہوگئی تھی لیکن عوام کے شدید احتجاج کے باوجود کے الیکٹرک نے زائد بجلی پیدا کی اور نہ ہی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم کیا تھا۔ نجی اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کی ملی بھگت سے دو ڈھائی لاکھ کے علاج کے دس لاکھ روپے مریضوں سے اینٹھ لیے جائیں گے جس کے بعد نجی اسپتال علاج سے انکار کردیں گے اگر اس وقت تک علاج مکمل نہیں ہوا تو بقیہ علاج کیسے اور کہاں کرایا جائے گا کیونکہ حکومت سرکاری اسپتالوں کے بدحال نظام اور انتظامات پر توجہ دینے، ٹھیک کرنے پر کچھ خرچ کرنے پر تیار ہے اور نہ ہی نئے اسپتال بنانے کا ارادہ رکھتی ہے اس کے لیے بجٹ میں پیسے ہی نہیں ہوں گے۔ پنجاب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائے ڈی اے) سرپرستِ اعلیٰ ڈاکٹر سلمان حسیب چودھری کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے ہیلتھ انشورنس منصوبے کے لیے جو 60 ارب روپے رکھے ہیں وہ نجی شعبہ کو دیے جائیں گے اور یہ رقم ترقیاتی بجٹ 78 ارب روپے میں سے ادا کی جائے گی۔ سرمایہ دار ممالک کے جس ماڈل کی پا کستان میں نقل کی جارہی ہے اس میں سارا انحصار نجی اسپتالوں کی کارکردگی پر ہے۔ نجی اسپتالوں کے بارے میں ڈاکٹر سلمان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نجی شعبے کے چند ایک اسپتالوں کو چھوڑ کر مریضوں کی اچھے انداز میں علاج اور خیال نہیں رکھا جاتا۔ نجی اسپتالوں میں تربیت یافتہ اسٹاف کی کمی ہے۔ مشینری اچھی نہیں ہے اور نہ ہی اُن سے کسی قسم کی کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے آزادیِ ملکیت کے نام پر صحت کے شعبے کو نجی شعبے کے حوالے کردیا ہے۔ اس طرح اسپتال، ادویات یا دیگر صحت کی سہولتوں کی فراہمی ایک کاروبار بن گیا ہے، اور کسی بھی دوسرے کاروبار کی طرح انشورنس کمپنیوں اور نجی اسپتالوں کے لیے سب سے اہم بات ان کا منافع ہوتا ہے۔ 400 ارب روپوں کو انشورنس کمپنیوں اور پرائیویٹ اسپتالوں پر نچھاور کرنے کے بجائے سرکاری اسپتالوں کی تعداد اور استعداد بہتر بنانے اور پہلے سے موجود کھربوں روپے کے شعبہ صحت کے ڈھانچے میں اضافے کے لیے خرچ کیا جانا چاہیے تاکہ عام شہریوں کو او پی ڈی سمیت تمام بیماریوں کے علاج کے لیے مفت طبی سہولتوں کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ اسلام نے صحت کی سہولت کی فراہمی کو معاشرے کی اجتماعی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے اور اس کی فراہمی کی ذمے داری انشورنس کمپنیوں یا نجی اسپتالوں پر نہیں بلکہ ریاست پر ڈالی ہے۔ اگلے کالم میں اسی موضوع پر بات ہوگی۔