جماعت اسلامی کا چورن بھی کھالیں

468

 

یہ جماعت اسلامی کون سا چورن بیچ رہی ہے۔ لوگوں کی تکلیفوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ جماعت اسلامی نے صحیح کام کیا ہے۔ کسی دانشور نے کہا کہ جماعت اسلامی سندھ دشمنی پر اُتر آئی ہے۔ آج تک لاہور کی محرومی کا نعرہ نہیں لگا، جب کوئی جواب نہیں بنا تو یہ کہہ دیا کہ جماعت ایم کیو ایم کی صف میں کھڑی ہوگئی ہے۔ اور تو اور مولانا ہدایت الرحمن کا دھرنا بھی پاکستان دشمن قوتوں نے کرایا تھا۔ اب مورخ یہ تحقیق کررہا ہے کہ افغان جہاد، کشمیر جہاد اور تمام ملک دشمن قوتوں کے سامنے جماعت اسلامی کے ڈٹ جانے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ اور یہ تو حال ہی میں اعتراف کیا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے خلاف جماعت اسلامی کی جدوجہد اور آواز اٹھانے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ بڑے اعزازات بھی دیے گئے اور اعترافات بھی کیے گئے۔ ہوا یوں کہ 31 دسمبر کو جماعت اسلامی کراچی نے اپنے امیر حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دے دیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سندھ کے بلدیاتی اداروں کے اختیارات واپس کیے جائیں۔ حکومت تمام اختیارات سلب کرکے بیٹھ گئی ہے۔ اور بلدیات کو یتیم کردیا ہے۔ حالاں کہ یہ مطالبہ پورے صوبے کے بلدیاتی اداروں کے بارے میں ہے لیکن چوں کہ کراچی کو فوکس کیا گیا ہے اس شہر سے مرکز اور صوبے کو دیے جانے والے ٹیکسوں کا ذکر ہے اور شہر کو کچھ نہ ملنے کا شکوہ ہے تو پھر کچھ روز تو اس میں گزر گئے کہ ہاں کچھ ترمیم کریں گے۔ سب سے پوچھا تو تھا اب بھی گنجائش ہے سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ایک وزیر باتدبیر نے کہا کہ اب آپ نے پانچ چھے دن دھرنا دے دیا تو ذرا سندھ اسمبلی سے ہٹ جائیں۔ سب سے زبردست بات اسپیکر صاحب نے فرمائی کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت جو فیصلہ بھی چاہے کرسکتی ہے۔ کیا مطلب… یعنی وہ چاہے تو پنجاب کے اضلاع کو بھی سندھ میں شامل کرسکتی ہے؟ لیکن اس پر کہا جائے گا کہ یہ تو غیر آئینی ہے۔ تو بھائی یہ ترمیم بھی اسی طرح غیر آئینی ہے۔
جماعت اسلامی کے دھرنے کے حوالے سے دو الگ رویوں کا ساتھ ساتھ مرحلہ چل رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات یا دھرنا ختم کرنے کی شرط پر مذاکرات کا پیغام اور جماعت کی طرف سے قانون واپس لینے پر مذاکرات کا اسرار ہے۔ کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ کسی نہ کسی کروٹ یہ اونٹ بیٹھے گا۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ حکومت یہ قانون واپس لے گی لیکن ممکن ہے کہ کراچی کی بلدیات کے کچھ اداروں کی تھوڑے بہت اختیارات بحال کردے۔ مسئلہ یہی تھا۔ جماعت اسلامی نے پورے ملک کے سامنے یہ حقیقت رکھ دی ہے کہ سندھ حکومت نے آئین میں دی گئی بلدیات کی حدود کو پامال کیا ہے۔ ان کے مالیاتی اختیارات اور انتظامی اختیارات اپنے قبضے میں صوبائی حکومت کی اکثریت کی بنیاد پر لے لیے ہیں۔ آئینی طور پر جو اختیارات اور فنڈز بلدیات کو ملنے چاہیے تھے۔ وہ دینے کے بجائے قانون میں ترمیم کردی اور بلدیات کو ان حقوق اور اختیارات سے محروم کردیا۔ ایسے میں کیا ہوسکتا تھا۔ اسمبلی میں جماعت اسلامی کا ایک رکن سید عبدالرشید تنہا آواز ہے۔ وہ پہلے دن سے آواز اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کررہے ہیں لیکن نقار خانے میں توتی کی آواز کون سنتا ہے۔ دوسرا پہلو حکومت اور جماعت کا نہیں بلکہ دانشوروں کا ہے۔ انہیں خود ساختہ نہیں کہوں گا کیونکہ ان میں سے اکثر خود نہایت فقیران انداز میں بات کرتے ہیں لیکن بات یہی ہے کہ سندھ حکومت کے وڈیرانہ طرز عمل پر آواز اٹھائی تو اسے چورن قرار دے دیا۔ اسے سندھ دشمنی کا تاثر قرار دے دیا۔ پنجاب سے آواز کیوں نہیں آتی کسی فکر کا اظہار کردیا۔ ایسے تمام دانشوروں اور حقائق کی گمشدہ کڑیوں کو ملا کر نہ دیکھنے والوں کو ضرور یہ بتایا جائے کہ حقائق کی کڑیاں ملائیں تو بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔ سندھ کے آئی جی، سابق وزیرداخلہ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، موجودہ عدلیہ کے کئی ججوں کے ریمارکس میں کراچی کی آبادی کو دو ڈھائی کروڑ اور آئی جی صاحب کے الفاظ میں تین سوا تین کروڑ تسلیم کیا گیا لیکن جب مردم شماری کے نتائج تسلیم کرنے پر اوپر سے اصرار کیا گیا تو سب کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوگیا اب کہیں کہیں سے سرکاری لوگوں کی آوازیں بھی آجاتی ہیں۔ لیکن اگر کراچی کی آبادی وہی تسلیم کرلی جائے جو مردم شماری میں ظاہر کی گئی ہے تو وہ بھی پورے صوبے کی آبادی کا 33 فی صد سے زیادہ ہے۔ کیا اس شہر کو بجٹ، حکومت کے عہدوں میں تقرر، وزارت، فنڈز وغیرہ اس تناسب سے مل رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کو چورن کہنے والوں سے گزارش ہے کہ یہ چورن کھالیں ورنہ ایک مرتبہ چاٹ تو لیں۔ انہیں افاقہ ہوگا۔ حقائق کا قبض دور ہوگا۔ آنتوں یا آنکھوں میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہوں گی سب صاف ہوجائے گا۔ اور جب صاف ہوجائے گا تو حقائق نظر آنے لگیں گے۔ ساری پارٹیوں کے چورن، منجن اور دھوکے کھا چکے۔
ایک اور بحث چل رہی ہے کہ کراچی صوبہ سندھ کے کئی شہروں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اس موازنے کی ضرورت کیوں پڑی اور یہ موازنہ ہے کیا۔ کراچی دنیا کا دسواں بڑا شہر ہے۔ اس کا موازنہ پاکستان کے کسی شہر سے نہیں ہوسکتا۔ اگر ترقی کی رفتار سے مقابلہ کرنا ہے تو کراچی اور لاہور کا مقابلہ نہیں موازنہ ہوسکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے لیے پیمانہ درست ہونا چاہیے۔ اگر موازنہ کرنے والوں کا پیمانہ ہی وڈیروں کو چیلنج کرنے پر سندھ دشمنی کا طعنہ ہو تو پھر ایسا موازنہ کس کام کا۔ اس لیے تھوڑا سا چورن کھالیں پھر حقائق پر مبنی موازنہ کریں تو پتا چلے گا کہ ملک کے عوام کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور کراچی کے عوام کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے دھرنے پر اعتراض کرنے والے ابھی تک ایم کیو ایم کے دور میں جی رہے ہیں۔ جب کہ گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران کراچی مہاجر اکثریت والا شہر نہیں رہا۔ بلکہ پہلے بھی نہیں تھا۔ لیکن اب تو سندھ کے لاکھوں لوگ کراچی آچکے ہیں۔ پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب کے لوگوں کی بڑی تعداد ایم کیو ایم کے آخری دور میں آنا شروع ہوئی تھی اور ان کی بہت بڑی آبادی کراچی میں موجود ہے۔ پنجاب اور کے پی کے سے لوگوں کی آمد پہلے ہی جاری تھی۔ جب کہ اردو بولنے ولے اس رفتار سے بڑھ نہیں رہے بلکہ صوبائی حکومت نے جو حالات پیدا کیے ہیں اس کی وجہ سے لوگ یہاں سے جارہے ہیں۔ مسئلہ آبادی کا یا زبان اور علاقے کا نہیں ہے۔ جس علاقے زبان کا حامل شخص کراچی میں مقیم ہے وہ کراچی کا باشندہ ہے۔ اسے پانی، بجلی، سڑک، ٹرانسپورٹ، رہائش، اسکول، اسپتال، پارک سمیت تمام شہری سہولتیں ملنی چاہئیں۔ اگر کراچی کے لیے ان سہولتوں کو یقینی بنانے کے لیے حافظ نعیم الرحمن بااختیار شہری حکومت کا مطالبہ کررہے ہیں تو کون سا جرم ہے اس میں سندھ دشمنی کہاں سے آگئی یہ تو منی پاکستان کے تمام لوگوں کو حق دلوانے کی تحریک ہے۔ پورے ملک کے لوگ مستفید ہوں گے، اسے تعصب کا شکار نہ کیا جائے، اسے چورن نہ کہا جائے اور اگر اصرار ہے تو تھوڑا سا کھا ہی لیں۔ یہ جمہوریت کا منجن نہیں، یہ اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکی نہیں بلکہ اینٹ اینٹ جوڑ کر شہر بنانے کی جدوجہد ہے۔ کوئی سیاسی علاقائی لسانی پارٹی کراچی میں وہ کام نہیں کرسکی جو جماعت اسلامی نے عبدالستار افغانی کے دو ادوار اور نعمت اللہ خان کے ایک دور میں کیا۔ شہر کی صورت بدل دی۔ ٹیکس کے بغیر بجٹ سیکڑوں گنا بڑھا دیا، پارک، سڑک، اسپتال، پانی سب کچھ دیا۔ ٹرانسپورٹ کا منصوبہ ایم کیو ایم اور پی پی نے روکا، پانی کا نیا منصوبہ اب تک رکا ہوا ہے، سڑکیں تباہ ہیں۔ کچرا بھرا ہوا ہے، گٹر ابل رہے ہیں، اسٹریٹ لائٹس بند ہیں، پارکس ویران ہیں، اسپتالوں میں دوائیں اور ڈاکٹر نہیں ہیں، اسکول میں اساتذہ اور طالبعلم نہیں ہیں۔ یہ سب مانگنا جرم ہے؟۔