عمران خان اسلامی دنیا پر برہم کیوں؟

691

وزیراعظم پاکستان مغرب سے مرعوبیت میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ دور جدید کے نام نہاد دانشوروں کی طرح اسلام اور امت مسلمہ کو مطعون کرنے پر اُتر آئے ہیں۔ عالمی اسکالرز سے نشستوں کے سلسلے میں دوسری نشست میں انہوں نے کہا کہ کرپشن اسلامی دنیا کا مسئلہ ہے اور بدعنوان قیادت اسے قابل قبول بنادیتی ہے۔ موبائل فون سے فحاشی پھیل رہی ہے اس کی وجہ سے خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جنسی جرائم میں سے محض ایک فی صد واقعات رپورٹ ہوتے ہیں تو قانون ان ایک فی صد جرائم کے ساتھ ہی نمٹتا ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے پاکستانی معاشرے کو اُٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم ایک عجیب مخمصے میں ہیں، بنیادی طور پر پاکستانی ہیں۔ لیکن اٹھان یورپ کی ہے۔ آزاد دنیا میں آزادی کے ساتھ ہر قسم کے کمال دکھا چکے ہیں، اسے وہ جوانی کی غلطیاں کہہ کر بھلا دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اب جو کچھ فرما رہے ہیں وہ 70 سالہ منجھے ہوئے شخص کی زبان ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کرپشن، مافیاز، جنسی مواد اور فحاشی یہ سب کہاں سے آئے ہیں۔ انہوں نے بڑے آرام سے ان تمام چیزوں کا تعلق اسلامی ملکوں سے جوڑ دیا۔ یہ چیزیں تو مسلم ممالک میں مغرب ہی سے آئی ہیں۔ یہاں تک کہ مافیا کا لفظ مسلم دنیا کی ایجاد نہیں ہے یہ اس اٹلی سے نکلا ہے۔ پہلا مافیا GIUSEPPE ESPOSITO گیپ ایپو سیٹو تھا جو اٹلی میں قتل کرکے فرار ہوا تھا اور امریکا پہنچا جہاں سے نیو اورسیز میں 1881 میں گرفتار ہوا۔ اسی طرح کرپشن لاطینی زبان سے نکلا ہوا لفظ ہے۔ جس چیز کو حکمرانوں یا سیاستدانوں کی کرپشن اور بدعنوانی کہتے ہیں اور اداروں کی یہ اسلامی دنیا سے پہلے مغرب میں پیدا ہوچکی تھی۔ جرائم، غلطیاں، دھوکے ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن یہ دونوں چیزیں مغرب کے تحائف میںسے ہیں۔
وزیراعظم موبائل کے ذریعے فحاشی کی بات کررہے ہیں لیکن یہ بھی بتادیتے کہ موبائل کہاں سے آیا اور اس میں دکھائی جانے والی فحاشی کی ویڈیوز اور مواد کہاں سے آیا؟ یہ بھی بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ اب تک سب سے زیادہ تباہ کن مواد مغرب ہی سے آیا ہے۔ اور یہ موبائل اگر حکومت اور ایجنسیوں کے خلاف تنقید کرنے والوں کو گرفتار کروا سکتا ہے تو فحش مواد دیکھنے والوں کو کیوں نہیں پکڑ سکتا۔ لیکن اصل مسئلہ پکڑنا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ مدینے کی وہ ریاست قائم کرنا ہے جس میں غلطی اور گناہ ہوجانے پر گناہ گار خود حکمران کے پاس پیش ہوجاتے تھے کہ ہم سے گناہ ہوگیا ہے، ہمیں اسی دنیا میں سزا دے کر پاک کردیجیے۔ یہ سزا رجم کی ہو یا گردن کٹوانے کی وہ لوگ ذہنی طور پر اس قدر پکے مسلمان ہوچکے تھے کہ قیامت میں سزا سے بچنے کے لیے اسی دنیا میں خود کو پاک کروانے کو ترجیح دیتے تھے۔ کیا ہمارے حکمران مدینے کی ریاست بناتے وقت ایسا ماحول اور تربیت فراہم کرتے ہیں جس میں عام آدمی خود کو پاک کرنے کے لیے پیش کرسکے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ حکمران پارٹی ہو یا سابق حکمران جماعتوں کے رہنما یہ اپنا ٹیکس بھی پورا نہیں بھرتے۔ پھر بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ٹیکس زیادہ لیا گیا ہے۔ جب حکمران ایسے ہوں گے تو عوام کیسے اچھے ہوجائیں گے۔ وزیراعظم یہ دیکھیں کہ اختلاط مردو زن کی آسانی کون دے رہا ہے۔ ٹی وی اور فلموں کے ذریعے بے حیائی کو فروغ دینے کا کام کون کررہا ہے۔ موبائل کو تیسرے درجے پر آتا ہے۔ ٹی وی کو یا تو اپنی تشہیر اور اپوزیشن کی تذلیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یا بے ہودگی کے لیے اصطلاح کے کام کو دین جماعتی اور ملائوں کا کام قرار دے کر اس سے بھاگ جاتے ہیں۔ ایسے حکمران عالمی اسکالرز کے سامنے مسلم دنیا ہی کو ذمے دار قرار دیں گے۔ یہ شکست خوردہ اور مرعوب ذہنیت کا بدترین نمونہ ہے۔
وزیراعظم جنسی زیادتی کو بھی مسلم دنیا کا مسئلہ تسلیم کر بیٹھے، یہ کام بہت تیزی سے مسلم دنیا میں سرایت کررہا ہے لیکن یہ تحفہ بھی مغرب ہی کا ہے، بس فرق یہ ہے کہ مغرب بہت سے کاموں کو جنسی زیادتی ہی نہیں سمجھتا۔ اسے فحاشی کا مطلب ہی نہیں معلوم جو حیا سے عاری ہیں وہ بے حیائی کے لیے لائن کہاں کھینچیں گے۔ وہ تو کہتے ہیں کہ میرے عمل سے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچ رہا تو اس پر معاشرہ حکومت اور کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ عمران خان مغرب کے پروردہ ہیں اس لیے ان کو اس بات کو سمجھنا ہی مشکل ہے۔ مغرب میں تو جنسی زیادتی کو تفریح سمجھا جاتا اس لیے وہاں یہ رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔ مسلم معاشرے میں اگر یہ کام ہوجائے تو لوگ بدنامی کے خوف سے رپورٹ نہیں کرتے۔
لیکن جناب وزیراعظم صاحب آپ ایک فی صد رپورٹ شدہ کیسز پر اسلامی سزائیں دے دیں پھر دیکھیں 99 فی صد کیسز کس طرح غائب ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ تو یہی ہے۔ زانی کی سزا سنگسار ہے، قاتل و ڈاکو کی سزا قتل ہے، چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، اسے آپ ظلم قرار دے کر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اور پھر اس غلاظت کو مسلم دنیا کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ ساری پارٹیوں کے کرپٹ لوگوں کو اپنی پارٹی میں بھرتی کرکے کرپشن کو مسلم دنیا کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ بے ہودگی اور فحاشی کی سرپرستی کرکے اسے مسلم دنیا کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ عوام کو اُٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ دیتے ہیں، عوام کو تو اس جھوٹ کے نظام کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے جو اس ملک پر مسلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حکمران مغرب کے ذہنی اور عملی غلام ہیں، وہ کسی طور بھی اسلام، مسلمان، اسلامی اصطلاحات اور احکامات کو ماننے پر تیار نہیں۔ بنی اسرائیل کی طرح سوالات ہی کرتے رہیں گے کہ گائے کیسی ہونی چاہیے۔ بالکل اسی طرح کہتے ہیں کون سا اسلام نافذ کیا جائے، کون سا فقہ… حالاں کہ تمام فقہوں کے لوگ معاملات طے کرچکے ہیں اسے ان لوگوں نے چھپا رکھا ہے۔