فیکٹری مالکان کے سامنے عدالتوں کا فیصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا

926

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) فیکٹری مالکان کے سامنے عدالتوں کا فیصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا‘ سرمایہ کاروں کا پیسہ بولتا ہے ‘ مزدور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں‘ کرپشن کے باعث محکمہ محنت، آجیر و لیبر ایسوسی ایشنز اور عدالتیں انصاف کی فراہمی میںناکام ہوگئیں‘ لیبر کورٹس میں ججز کی اسامیاں خالی رہتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ کے جنرل سیکرٹری شکیل احمد شیخ، وائس آف پاکستان اسٹیل آفیسر ایسوسی ایشن کے صدر مرزا مقصود،عبدالزبید ایڈووکیٹ، ارشد محمود ایڈووکیٹ ، فضل منان باچا ایڈووکیٹ، نیشنل لیبر فیڈریشن کوئٹہ کے صدر عمر حیات تورولی، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رہنما عبدالحئی اور پاکستان مشین ٹول فیکٹری ڈیلی ویجز ایکشن کمیٹی کے رہنما علی اختر بلوچ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ’’عدالتوں سے مزدوروں کو انصاف کے حصول میں مشکلات کیا ہیں؟‘‘شکیل احمد شیخ نے کہا کہ 1970ء کی دہائی میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں محنت کشوں کو کچھ سہولیات دستیاب ہوئیں لیکن اس کے بعد عملاً ٹریڈ یونین پر قدغن لگنا
شروع ہو گئی ‘تمام صنعتی اداروں میں خصوصاً ٹیکسٹائل انڈسٹریز میں ٹریڈ یونین کو ختم کردیاگیا‘ لیبر ڈپارٹمنٹ اور معزز عدالتوں سے انصاف کے حصول میں محنت کشوں کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض لیبر کورٹس میں محنت کشوں کے حقوق پر سودے بازی کی گئی‘ بے تحاشہ اخراجات کی وجہ سے محنت کشوں اور ٹریڈ یونین رہنمائوں میں طاقت ہی نہیں کہ مالکان کا عدالتوں میں سامنا کرسکیں‘ صنعتکار بڑے بڑے نامی گرامی وکلا کے ذریعے من چاہے فیصلے کرالیتے ہیں۔ حال ہی میں حکومت سندھ کے احسن اقدام کو صنعتکاروں نے روکا‘ عدالت عظمیٰ سے حکم امتناع حاصل کر کے محنت کشوں کو شدید مہنگائی کے دور میں 25 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے حصول سے محروم کردیا‘ یہ کیسا انصاف ہے۔ مرزا مقصود نے کہا کہ ماضی میں لیبر کورٹس اپنی روح کے مطابق کام کرتی رہی ہیں اور تاریخ ساز ججز لیبر کورٹس سے گزر کر ہی آگے بڑھتے رہے ہیں۔ وکلا بھی مزدوروں، ٹریڈ یونینوں کی پیروی کرنا فخر سمجھتے تھے لیکن پھر زمانہ تبدیل ہوتے ہوتے آج کے دور میں پہنچ گیا جہاں نہ سرسری سماعت ہے‘ نہ ایس پی لودھی، نبی احمد، خلیل، مرزا کاظم، علی امجد، محمد علی جیسے رہنما وکیل ہیں اور نہ ہی جسٹس بھگوان داس ، جسٹس صبیح، جیسے جج ۔ اب تو سرمایہ کار اور مالکان ہیں ان کی عدالتیں، قانونی موشگافیاں اور خوار ہوتے عدالت میں آنے سے مزدور ڈرتے ہیں۔ عبدالزبید ایڈووکیٹ نے کہا کہ روزنامہ جسارت جس طرح محنت و لگن سے آجیر اور اجیر کے معاملات، مسائل کو اجاگر کرتا ہے وہ قابل تعریف ہے لیکن مسائل کے حل میں محکمہ محنت، آجیر کی ایسوسی ایشنز، لیبر فیڈریشنز اور لیبر عدالتیں بری طرح ناکام رہی ہیںجس کی اہم وجہ بے حسی اور کرپشن ہے‘ لیبر کورٹس میں اکثر اوقات ججز کی اسامیاں خالی رہتی ہیں‘ ججز کی جلد تعیناتی نہیں ہوتی ہے‘ انصاف کے حصول کے لیے سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے جو کہ انصاف نہ ملنے کے برابر ہے‘ہائی کورٹ کے احاطے میں جو کیفے ٹریاز، کینٹین میں ورکرز کام کرتے ہیں انہیں تمام قانونی حقوق و مراعات سے محروم رکھا جاتا ہے اور یہاں تک کہ ویٹرز کو تنخواہ نہیں دی جاتی ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک سو روپے روزانہ کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں جو کہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے اور یہ بار کونسل، بار ایسوسی ایشن کی بے حسی ہے۔ ارشد محمود ایڈووکیٹ نے کہا کہ 2 لیبر کورٹس کراچی میں پچھلے کئی ماہ سے ججز کے تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی ہیں اور ایک عدالت میں عملہ نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں ہو رہا ہے اور مزدوروں کے لیے جن کو آواز بلند کرنی چاہیے وہ 5 اسٹار ہوٹل میں پروگرام کو انجوائے کر رہے ہیں اور مزدور بے چارے رُل گئے ہیں۔ فضل منان باچا ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتوں سے انصاف تو اس وقت ممکن ہوگا جب عدالتیں چلیں گی‘سندھ لیبر کورٹ نمبر1 چار سال سے زاید ہوگئے یہ خالی ہے‘ کورٹ نمبر 3 والا کسی کیس کو ہاتھ لگانا گناہ سمجھتا ہے‘ 2 نمبر میں گزشتہ 9 سال سے اسٹینوگرافر نہیں ہے۔ لیبر عدالتوں کی اتنی بدحالی پہلے کھبی نہیں رہی‘ حکمران بھنگ پیکر سوئے ہیں اور نام نہاد لیبر لیڈر اپنے ٹھیکوں میں مصروف ہیں‘ این جی اوز مغربی ممالک کے پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں‘ انصاف کا تصور ایک سراب ہے۔ عمر حیات تورولی نے کہا کہ عدالتوں سے انصاف کے حصول میں مزدوروں کو بہت دشواریاں ہیں جب کہ مالکان کے لیے کوئی دشواری نہیں کیوں کہ مالکان کا پیسہ بولتا ہے اور مزدور اپنے انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے۔ اگر کوئی عدالت کسی مزدور کے حق میں فیصلہ دے بھی دیتی ہے تو پھر مالک کسی اور بہانے سے مزدورکو تنگ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ مالک کو پتا ہے کہ میں نے ایک مزدور کو اس کا حق دے دیا تو کل کے لیے سارے مزدور مجھ سے اپنا حق طلب کریں گے‘ عدالتوں کا فیصلہ مالک کے سامنے معنی نہیں رکھتا۔ عبدالحئی نے کہا کہ کراچی میں5 لیبر کورٹس ہیں‘ بعض میں مجسٹریٹ موجود ہی نہیں ہوتا‘ یہ سب کچھ جان بوجھ کر ہوتا ہے‘عدالت میں اگر مجسٹریٹ موجود ہی نہ ہو تو مزدور بے چارہ ہی رہے گا‘ اس کو بچوں کو روٹی کھلانی ہے، وہ کب تک بغیر پیسوں کے لڑے گا‘ عدالتیں انصاف جلد فراہم کردیں تو سرمایہ دار کا نقصان ہوگا۔ علی اختر بلوچ نے کہا کہ حصول انصاف کی فراہمی کے لیے پراسیکیوشن کا محکمہ بہت اہم ہے‘ اس ادارے کا مقصد عوام کو جلد انصاف کی فراہمی اور مظلوموں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرنا ہے‘ بنیادی طور پر ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ حصول انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں دلچسپی لے۔