افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

315

نماز میں توجہ کی کمی کا مسئلہ
توجہ اور حضورِ قلب کی کمی نماز میں نقص ضرور پیدا کرتی ہے۔ لیکن فرق ہے اس بے توجہی میں جو نادانستہ ہو اور اس میں جو دانستہ ہو۔ نادانستہ پر مواخذہ نہیں ہے بشرطیکہ انسان کو دورانِ نماز میں جب کبھی اپنی بے توجہی کا احساس ہوجائے، اسی وقت وہ خدا کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کرے، اور اس معاملے میں غفلت سے کام نہ لے۔ رہی دانستہ بے توجہی، بے دلی کے ساتھ نماز پڑھنا اور نماز میں قصداً دوسری باتیں سوچنا، بلاشبہہ یہ نماز کو بے کار کردینے والی چیز ہے۔
عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر جو بے حضوری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کی تلافی جس حد تک ممکن ہو، نماز کے اذکار کا مفہوم ذہن نشین کرنے سے کرلیجیے۔ اس کے بعد جو کمی رہ جائے، اس پر آپ عنداللہ ماخوذ نہیں ہیں، کیوں کہ آپ حکمِ خدا و رسولؐ کی تعمیل کر رہے ہیں۔ اس بے حضوری پر آپ سے اگر مواخذہ ہوسکتا تھا تو اس صورت میں جب کہ خدا و رسولؐ نے آپ کو اپنی زبان میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہوتی اور پھر آپ عربی میں نماز پڑھتے۔(ترجمان القرآن، جنوری، فروری 1951ء)
تزکیۂ نفس
عربی زبان میں تزکیہ نفس کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک پاک صاف کرنا، دوسرے بڑھانا اور نشونما دینا۔ اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انہی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے پس تزکیہ کا عمل دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفس انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم و عادات سے پاک صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعے سے اس کو نشونما دیا جائے۔
(ترجمان القرآن، جولائی، اگست 1945ء)
صحابہ کرامؓ اور تصوف
صحابہ کرامؓ نے تو عالم بالا کے معاملے میں صرف رسولؐ کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انہوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دنیا میں عملاً وہ نظام حق قائم کردیں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشونما دینے والا ہو۔
(ترجمان القرآن، جولائی، اگست 1945ء)
مہر
شریعت نے مہر کو عورت کا ایک حق مقرر کیا تھا اور اس کے لیے یہ طریقہ طے کیا تھا کہ عورت اور مرد کے درمیان جتنی رقم طے ہو اس کا ادا کرنا مرد پر واجب ہے۔ لیکن مسلمانوں نے شریعت کے اس طریقہ کو بدل کر مہر کو ایک رسمی اور دکھاوے کی چیز بنا لیا، اور بڑے بڑے مہر دکھاوے کے لیے باندھنے شروع کیے، جن کے ادا کرنے کی ابتدا ہی سے نیت نہیں ہوتی اور جو خاندانی نزاع کی صورت میں عورت اور مرد دونوں کے لیے بلائے جان بن جاتے ہیں اب ان غلطیوں سے بچنے کی سیدھی اور صاف صورت یہ ہے کہ مہر اتنے ہی باندھے جائیں جن کے ادا کرنے کی نیت ہو، جن کے ادا کرنے پر شوہر قادر ہو۔ پورا مہر بروقت ادا کردیا جائے تو بہتر ہے، ورنہ اس کے لیے ایک مدت کی قرار داد ہونی چاہیے اور آسان قسطوں میں اس کو ادا کردینا چاہیے۔ اس راستی کے طریقے کو چھوڑ کر اگر کسی قسم کے حیلے نکالے جائیں گے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ایک غلطی سے بچنے کے لیے دس قسم کی اور غلطیاں کی جائیں گی جو شرع کی نگاہ میں بہت بری اور اخلاق کے اعتبار سے نہایت بدنما ہیں۔
(ترجمان القرآن، اکتوبر46ء)