گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی ملکی معیشت کا کچھ علم نہیں؟

485

سندھ انڈسٹریل ٹریڈ اسٹیٹ کے چیئرمین سلیم پاریکھ نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ کے بارے میں صحافیوںکو بتایا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسٹیٹ بینک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو خوش کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں اس قدر اضافہ کر رہا ہے کہ اس کی امید نہیں تھی۔ شرح مبادلہ میں بھی استحکام نہیں، ڈالر روز اوپر سے اوپر جا رہا ہے، ایسے میں صنعت کار اور عام آدمی کیا کرسکتا ہے جس سے معیشت میں بہتری آئے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’پہلے ہی عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ اب مزید مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ہے، اتنے زیادہ ریٹ پر صنعت کیسے چل سکتی ہے، ملک بھر کی صنعتوں سے لوگوں کی چھانٹی، اور پیداوار گھٹ جائے گی‘‘۔ پاکستانی حکام اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان گزشتہ ہفتے چھے ارب ڈالر قرضے کے لیے معاہدہ طے پایا ہے، جس کے خدوخال تاحال سامنے نہیں آئے ہیں، لیکن اقتصادی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں بجلی، گیس، ڈالر کی قیمت اور شرح سود میں اضافہ اسی معاہدے کا حصہ ہے۔ لیکن اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ:
’’معاشی اندازے غلط نکلے۔ مہنگائی 11فی صد تک رہنے کا امکان ہے جبکہ شرح سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے، شرح سودمیں ایک فی صد اضافے کے بعد 9.75 فی صدکر دیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے تجارتی خسارہ بڑھ کر 5 ارب ڈالر ہوگیا، نان ٹیکس محاصل میں 22.6 فی صد کمی ہوئی لیکن رواں مالی سال معاشی نمو 5فی صد رہنے کا امکان ہے۔ درآمدات اور ٹیکس محاصل میں مسلسل اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی نمو بدستور ٹھوس ہے۔ اسی ٹھوس کے فلسفے تحت نومبر میں مہنگائی بڑھ کر 11.5 فی صد ہوگئی۔ اس لیے حکومت ٹیکس مستثنیات ختم اور ترقیاتی اخراجات میںکمی کے لیے قانون لانا چاہتی ہے۔ شرح سود بڑھانے کا مقصد مہنگائی سے نمٹنا اور پائیدار نمو کا حصول ہے۔ پالیسی ریٹ کو 100بیسز پوائنٹس بڑھا کر 9.75 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، زری پالیسی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے کا مقصد مہنگائی کے دباؤ سے نمٹنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ نمو پائیدار رہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے جس کا سبب بلند عالمی قیمتیں اور ملکی معاشی نمو کا بڑھنا ہے۔ بجلی کی پیداوار، سیمنٹ کی ترسیل اور عارضی صارفی اور پٹرولیم مصنوعات کی فروخت، درآمدات اور ٹیکس محاصل میں مسلسل اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی نمو بدستور ٹھوس ہے‘‘۔ یہ سارا فلسفہ اسٹیٹ بینک مانیٹرنگ پالیسی کے اعلان میں موجود ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اس فیصلے کے معیشت پر تو اثرات یقینا پڑیں گے۔ ملکی تاجروں و صنعت کاروں نے فوری طور پر اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے شرح سود میں اضافے کو صنعتی ترقی میں رکاوٹ سے تعبیر کیا ہے۔
شرح سود میں اضافہ صنعتی شعبے کے لیے بلاشبہ مشکل ترین فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف سرمایہ کاری متاثر ہوگی، بلکہ وہ صنعت کار جو ملک میں امن و امان قائم ہونے کے بعد نئی صنعتیں لگانے کے بارے میں سوچ رہے تھے، وہ اب اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں شرح سود کم تھی تو اس وقت سرمایہ کاری آرہی تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم آٹھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، لیکن اب پالیسی ریٹ بڑھنے کے بعد سرمایہ کاری میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ حکومت ایک طرف تو لاکھوں ملازمتیں دینے کی بات کرتی ہے لیکن دوسری جانب پیداواری لاگت میں اضافہ کردیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پیداوار اور روزگار کے مواقع کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ تین سال قبل 23 مئی 2016 کو پالیسی ریٹ پانچ اعشاریہ سات پانچ فی صد کی کم ترین سطح پر تھی، جس میں اب مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ہے، موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو 16 جولائی 2018 کو پالیسی ریٹ صرف چھے فی صد تھا، یعنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے شرح سود کو نہ صرف دہرے ہندسے میں پہنچا دیا، بلکہ دگنا اضافہ بھی کردیا تھا۔ پالیسی ریٹ بڑھنے سے نجی شعبے کے لیے قرضوں کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے، یعنی کاروباری افراد کو مہنگے ریٹ پر قرضہ ملتا ہے۔
شرح سود میں ا ضافہ سے ایک طرف تو صنعتوں میں توسیع بند ہو جاتی ہے اور دوسری طرف اپنا بوجھ صنعتی پیداوار پر منتقل کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور نتیجہ مہنگائی کی صورت میں عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے‘‘۔ پالیسی ریٹ بڑھنے سے یقینا مہنگائی میں اضافہ ہوگا، عام آدمی جو پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ہر چیز پر اضافی پیسے دے رہا ہے، اس کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی، کیونکہ اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، لیکن اس کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا۔ اسٹیٹ بینک ہر دو ماہ بعد پالیسی میں ردوبدل کرتا ہے۔ اس سے قبل مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں ملک کے معاشی حالات بالخصوص مہنگائی میں اضافے کی شرح اور نجی شعبے کے قرضوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صنعت کاروں نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید 100 بیسز پوائنٹس اضافے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ، کاروبار مشکل ہو گا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب صنعتوں کو گیس کی شدید قلت کی وجہ سے جبری بندش کا سامنا ہے۔ فری فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ دھچکے کا کام کرتا ہے جو بروقت درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اپنے مانیٹری پالیسی کے بیان میں کہا ہے کہ افراط زر کی وجہ سپلائی سائیڈ کے ایشوز ہیں جن کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا 70 فی صد تک عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ صنعتوں کو پہلے ہی کورنا وبا سے پیدا ہونے والے شدید بحران اور اب گیس کی بندش کی وجہ سے شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ا یک طرفہ کم از کم اجرت کا نوٹیفکیشن، شرح سود میں اضافہ پریشان حال صنعت کاروں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔ شرح سود میں اضافے کو پاکستان کی معیشت بالخصوص حکومت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔ ستمبر 2021ء اب تک سے شرح سود میں 275 بیسز پوائنٹس کے اضافے کے نتیجے میں 26 کھرب ملکی قرضوں پر سود کے اخراجات میں 1 ٹریلین روپے کا اضافہ ہو کر مالیاتی خسارہ بڑھے گا۔
صنعت کاروں کو ایک اہم مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ کراچی کو ملکی برآمدات کا 54 فی صد اور 70 فی صد ریونیو دینے کی سزا دی جارہی ہے اور غیر برآمدی صنعتوں کی گیس بند کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوئی سدرن نے اگر غیربرآمدی صنعتوں کی گیس منقطع کی تو فیکٹریوں کو تالے لگ جائیں گے جبکہ ایس ایم ایز سیکٹر تباہ ہوجائے گا۔ حکومت ایک جانب ملکی معیشت کے استحکام کی بات اوردوسری جانب برآمدات کے فروغ اور روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرنے پر کراچی کو مشکل میں ڈالا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عام صنعتوں کی گیس بند کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
مہنگائی کی شرح کے حوالے سے مرکزی بینک کے اقدامات سے تاجر بہت زیادہ پریشانی کا شکار ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ معیشت اور عوام کے بہترین مفاد میں فوری طور پر شرح سود میں کمی کی جائے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پہلے سے بڑھی ہوئی شرح سود میں مزید اضافہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اعلیٰ سیاسی ڈھانچے میں افراط زر اور شرح سود کے باہمی تعلق کے بارے میں قطعی غیر یقینی صورتحال ہے۔ اس پوری صورتحال کے باوجود اسٹیٹ بینک کا یہ جملہ بہت قیمتی ہے کہ ’’معاشی اندازے غلط نکلے۔ مہنگائی 11فی صد تک رہنے کا امکان ہے‘‘۔ آئی ایم ایف سے از خود معاہدہ کرنے والے گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی پاکستان کی معیشت کا کچھ علم نہیں اور اس بات کا ان کی رپورٹ میں اقرار بھی کیا جا چکا ہے اس کے بعد بھی صرف قرض کے لیے اس اہم عہدے پر ان کا رہنا ضروری ہے؟؟