نقطہ نظر

182

رضا باقر کو برطرف کیا جائے
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کو ان کے عہدے سے فارغ کیا جائے۔ یہ باہر سے آئے ہوئے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ آج ڈالر کہاں پہنچ گیا ہے؟ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، ان جیسے لوگوں کو 22 کروڑ عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ان کی پالیسیاں ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے ہوتی ہیں، کیوں کہ انہی کے یہ ملازم ہیں اور ان کے حکم پر چلتے ہیں۔ امریکا اور آئی ایم ایف یہ برداشت نہیں کریں گے کہ پاکستان کسی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا ہوا۔ ہمیشہ ان کا غلام رہے تا کہ وہ حکومت پاکستان سے اپنی شرائط منواسکیں۔ لہٰذا حکومت سے مطالبہ ہے کہ جلد از جلد رضا باقر جیسے لوگوں سے اداروں اور ملک کو نجات دلائی جائے۔ انہیں پاکستان سے کوئی سروکار نہیں، جب انہیں یہاں رہنا ہی نہیں ہے تو یہ ملک کا فائدہ کیوں سوچیں گے؟
سیما رزقی
مہنگائی عذاب بن گئی
ملک کا متوسط طبقہ ہو یا غریب طبقہ مہنگائی سے پریشان ہے۔ بڑھتی قیمتوں نے عوام کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا پر بات ختم نہیں ہوتی کہ بجلی اور گیس کے نرخ روز بروز ٹیکس کے ساتھ دوگنے ہوتے جارہے ہیں۔ مہنگائی کی سطح اوپر ہی جارہی ہے اور اسے کوئی نیچے اُتارنے والا نہیں ہے۔ آٹا، دودھ، تیل، گھی کی قیمتیں تو بس اوپر ہی اوپر ہیں۔ لہٰذا ایسے اقدامات ہونے چاہئیں کہ ملک کا ہر شہری اپنی ضروریات باآسانی سے پوری کرسکے، کھانے پینے کی اشیا ان کی قوتِ خرید سے باہر نہیں ہونی چاہئیں۔
سائرہ بانو، کورنگی شرقی
پیراڈائز ہومز کی تباہ حال
سیوریج لائن اور سڑکیں
گلزار ہجری کے ڈی اے اسکیم 33 پیراڈائز ہومز تقریباً 35 سے 40 سال قبل آباد ہوا تھا۔ اس وقت آبادی سیکڑوں میں تھی اور ادارہ ترقیات نے پانی اور سیوریج لائن ڈالی تھیں۔ اس وقت آبادی سیکڑوں اور ہزاروں سے تجاوز کرکے لاکھوں پر پہنچ گئی ہے۔ لہٰذا سیوریج اور پانی کی دونوں لائنیں جواب دے چکی ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ غریبوں کے زبانی ہمدردی اور سیاسی حکمران کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ علاقے میں گٹر بہہ رہے ہیں۔ علاقے میں پانی نہیں آرہا۔ پانی کی عدم دستیابی اور ان کی رستی ہوئی لائنوں کی جانب توجہ دلائی جاتی رہی ہے۔ لیکن کوئی اس مسئلے کو حل کرنے والا نہیں۔
صغیر علی صدیقی
جگہ جگہ لگے بت
گارمنٹس کی دکانیں ہوں یا مارکیٹ، بیوٹی پارلرز ہوں یا جیولرز کی دکانیں، آپ جہاں قدم رکھیں جہاں نظر دوڑائیں آپ کو قطار در قطار ڈمیز کا سراپا نظر آئے گا۔ شاید ہم اسے ترقی یافتہ دور کی ضرورت کہہ لیں یا وقت کا تقاضا کہ اسے ضرورت کا درجہ دے دیا گیا، وگرنہ کاروبار تو پہلے بھی بہت وسیع ہوا کرتے تھے، مارکیٹیں اور کپڑوں کے گودام بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ اگر تاجر پر خدانخواستہ کوئی برا وقت پڑ جاتا تھا تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اپنی ضرورت روک کر دوسروں کی ضروریات کو پورا کردیا جاتا تھا۔ اور یہ عمل دنیا میں کامرانی اور آخرت میں اجر کا سبب بنتا تھا۔ لیکن آج افسوس ہے کہ ان بتوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرکے ہمارے مسلمان بھائی اپنے کاروبار میں ترقی کا گمان کیے بیٹھے ہیں اور ان بتوں کو اپنے رزق کی فراخی کا موجب سمجھ لیا ہے۔ ارباب ِ ہوش و خرد کو چاہیے کہ مسلم معاشرے میں آنے والی اس خرابی کا سدباب کریں اور بے شعوری کی اس بت پرستی سے نجات دلائیں۔
روشن زرین