رول ماڈلز بدلنا ہوں گے

507

وزیر اعظم ہاؤس میں سیالکوٹ واقعے میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر غیر ملکی منیجر پریانتھا کمارا کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے ملک عدنان کو پیش کیا جانے والا خراج درحقیقت کردار کی طاقت کو سلام ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی دل کھول کر اس نوجوان کے رویے کی تعریف کی۔ انہوںنے کہا ایک شخص نے کردار کی بنیاد پر ہجوم کے آگے کھڑے ہونے کی مثال قائم کی۔ حکومت نے ملک عدنان کو 23 مارچ کو قومی اعزاز دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ علمائے کرام بھی سطحی جذباتیت اور جنونیت کا ساتھ دینے کے بجائے غیر ملکی کے غم میں شریک ہو کر لکیر کی درست سمت میں کھڑے ہوگئے۔ سری لنکا کے سفارت خانے میں علما کا چل کر جانا نئی رسم و ریت کا آغاز ہے۔ پاکستانی عوام اور میڈیا بھی ملک عدنان کو بھرپور خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ بیتے ہوئے کل کا گمنام نوجوان آج قومی ہیرو کے طور پر اُبھر چکا ہے۔ اس موقع پر خود کو ہیرو بنانے والے کہیں برقعے پہن کر بھاگتے ہوئے دھرلیے جاتے ہیں اور کہیں ان کے منہ اُترے ہوئے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔ یہ قول آب ِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ جو معاشرہ ظلم اور فسق وفجور پر قائم ہوتا ہے آخر کاروہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسانوں کو تادیر ظلم و تعدی کی بنیاد پر سر جھکانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اصول حکومتوں، قوموں اور افراد سمیت ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔ مذہبی اور ملکی تعصب کی بات ہو تو معاشرے کو ان فسادیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، مگر بات چوں کہ حق وانصاف کی ہے اس لیے پاکستان کا معاشرہ مجموعی طور پر ایک غیر ملکی کی ہمدردی میں ہلکان ہو رہا ہے اور اس کے بے دردی سے قتل پر ماتم کناں ہے۔ ملک عدنان بھی اسی سوسائٹی کا ایک نوجوان تھا۔ اسی علاقے کا نوجوان تھا مگر وہ حق اور صداقت کے راستے پر چلا۔ اس ساری کہانی نے اس کی آنکھوں کے سامنے جنم لیا تھا اس لیے وہ ایک مظلوم انسان کی جان بچانے کے لیے فسادیوں کے سدِراہ بن گیا۔ اب حکومت نے بھی ملک عدنان جیسے کردار کی بھرپور پزیرائی کرکے نوجوانوں کو ایک نیا رول ماڈل دکھانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت میں عوام کا مزاج حکومتیں ہی بناتی ہیں۔ عوام نچلی سطح تک حکومت کی روایات اور فیصلوں کا اثر لیتے ہیں اور اس کے بعد عوامی رویوں اور
سوسائٹی کے رویوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ پاکستان کا بہت نقصان یہ ہوا کہ یہاں نظریہ ضرورت کا راج رہا۔ وقتی ضرورت کے تحت نت نئے تجربات کیے جاتے رہے جس سے ملک ایک بڑی تجربہ گاہ یا لیبارٹری کی شکل اختیار کر گیا۔ اس سے فیصلہ سازوں کا موسم تو اچھا گزرتا رہا مگر آنے والی رُتوں کے تیور بگڑتے چلے گئے۔ لمحوں کی یہ خطائیں صدیوں کی سزائیں بنتی چلی گئیں۔ یوں معاشروں میں مرکزیت قائم نہیں رہی اور نظریہ ضرورت کے تحت پیدا کردہ فسادی کردار اور تراشیدہ اصول معاشرے کا رول ماڈل بنے یا بنائے گئے۔ یہ ظلم کی ہی ایک شکل تھی۔ ظلم کیا ہے؟ چیزوں کو ان کی اصل ترتیب سے ہٹانا۔ ان کی غیر منصفانہ ترتیب بنانا۔ معاشرے کو اصل اور فطری روایت اور اصول سے ہٹا کر نظریہ ضرورت کے تحت تراشیدہ اصولوں کا خوگر اور اسیر بنانا بھی ظلم ہے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلا فتنہ وفساد معاشرے کا مقبول چلن اور رویہ بن گیا۔ معاشرے کی اجتماعیت کا تصور ان چھوٹے اور گروہی رول ماڈلز کے باعث کمزور پڑتا چلا گیا اور یہاں تک ملک آج انارکی اور اخلاقی تنزل کی گہرائی میں پہنچ چکا ہے۔ اب فقط راکھ کا ڈھیر باقی رہ گیاہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سوسائٹی کی تشکیل جدید ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اس قوم کو اپنے گروہی، فسادی اور چھوٹے رول ماڈلز کو بدلنا اور اس کی جگہ بڑے رول ماڈلز کو اپنانا ہوگا۔ حکومتیں اور میڈیا بکھری ہوئی سوسائٹی کی تشکیل جدید میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں لیکن ان کے اپنے اور طبقاتی رول ماڈلز بھی بدلنا ہوں گے۔ ملک عدنان جیسے مقامی اور دیسی کرداروں کو جگنو بنا کر سرِ محفل اور سرِراہ میں رکھنا اور مسلسل رکھتے چلے جانا ہوگا۔ ایسے کرداروں کی علامتی ہی نہیں حقیقی پزیرائی کرنا ہوگی۔ قوم کا مزاج برسوں سے بڑی محنت کے ساتھ بگاڑا گیا ہے اس کو سنورنے میں بھی بہت عرصہ لگے گا مگر کہیں اور کبھی تو ابتدا ہونا ہی تھی۔ اس معاشرے کو دوبارہ انسانیت اور حقیقی اسلام کے ارفعیٰ اصولوں کی جانب لانا ہوگا۔ خود ساختہ تصورات اور گروہی جکڑ بندیوں پر مبنی ’’یوٹیو پیا‘‘ سے نکالنا ہوگا۔ راکھ کے ڈھیر پر ایک نئی عمارت کھڑی کرنی ہے تو اس واقعے کو بھلانے کے بجائے اسے اور اس کے اندر سے اُبھرنے والے مثبت کرداروں کو یاد رکھنا ہوگا۔ آئندہ بھی کسی ناخوش گوار واقعے میں گروہی، ذات برادری، علاقے کے مفاد کے بجائے حق اور صداقت کا ساتھ دینے کی روایت کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ سوسائٹی کے دیسی رول ماڈلز بدلے بغیر زوال کے اس سفر کو روکنا ممکن نہیں۔