افکار سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ

330

ایصالِ ثواب قرآن و حدیث سے عام قاعدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کا اپنا عمل ہی اس کے لیے مفید ہے۔ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے آخرت میں مفید نہ ہوگا، لیکن بعض احادیث سے یہ استثنائی صورت بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی جتنی احادیث بھی ہمیں ملی ہیں، ان سب میں کسی خالص بدنی عبادت کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایسی عبادت کا ذکر ہے، جو یا تو صرف مالی عبادت ہے جیسے صدقہ، یا مالی و بدنی عبادت ملی جْلی ہے، جیسے حج۔ اسی بنا پر فقہا (کا) ایک گروہ اسے مالی اور بدنی عبادات دونوں میں جاری کرتا ہے اور دوسرا گروہ اس کو ان عبادات کے لیے مخصوص کرتا ہے جو یا تو خالص مالی عبادات ہیں یا جن میں بدنی عبادت مالی عبادت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک یہ دوسرا مسلک اس لیے مرجح ہے کہ قاعدئہ کلیہ میں اگر کوئی استثناء کسی حکم سے نکلتا ہو تو اس استثناء کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حد تک وہ حکم سے نکلتا ہے۔ اسے عام کرنا میری رائے میں درست نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پہلے گروہ کے مسلک پر عمل کرتا ہے تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی کیونکہ شریعت میں اس کی گنجایش بھی پائی جاتی ہے۔
٭…٭…٭
ایصالِ ثواب کا میت کے لیے نافع ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، تو اس کا سبب دراصل یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کی نوعیت محض ایک دْعا کی ہے، یعنی ہم اللہ سے یہ دْعا کرتے ہیں کہ یہ نیک عمل جو ہم نے تیری رضا کے لیے کیا ہے اس کا ثواب فلاں مرحوم کو دیا جائے۔ اس دْعا کی حیثیت ہماری دوسری دْعائوں سے مختلف نہیں ہے۔ اور ہماری سب دْعائیں اللہ کی مرضی پر موقوف ہیں۔ وہ مختار ہے کہ جس دْعا کو چاہے قبول فرمائے اور جسے چاہے قبول نہ فرمائے۔
٭…٭…٭
ایصالِ ثواب ہر ایک کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ خواہ متوفی سے کوئی قربت ہو یا نہ ہو، اور خواہ متوفی کا کوئی حصہ آدمی کی تربیت میں ہو یا نہ ہو۔ جس طرح دْعا ہر ایک شخص کے لیے کی جاسکتی ہے، اسی طرح ایصالِ ثواب بھی ہر ایک کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن، فروری 1961)
٭…٭…٭
نیکوکاروں کی تین صفات! (قرآن کریم میں) ’نیکوکار‘ لوگوں کی تین صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا، جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار انھی تین چیزوں پر ہے:
٭وہ نماز قائم کرتے ہیں، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔
٭وہ زکوۃ دیتے ہیں، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاعِ دْنیا کی محبت دبتی ہے اور رضائے الٰہی کی طلب اْبھرتی ہے۔
٭اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمے داری و جواب دہی کا احساس اْبھرتا ہے۔ جس کی بدولت وہ اس جانور کی طرح نہیں رہتے، جو چراگاہ میں چْھوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہوجاتے ہیں، جسے یہ شعور حاصل ہو کہ مَیں خودمختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کارگزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے مجھے جواب دہی کرنی ہے۔
ان تین خصوصیات کی وجہ سے یہ ’نیکوکار‘ اس طرح کے نیکوکار نہیں رہتے جن سے اتفاقاً نیکی سرزد ہوجاتی ہے اور بدی بھی اسی شان سے سرزد ہوسکتی جس شان سے نیکی سرزد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات ان کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر واخلاق پیدا کردیتی ہیں، جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطے کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثے کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو ان کے نظام فکر واخلاق سے اْبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔ (ترجمان القرآن، مارچ 1961)