ایک سزا کیخلاف اپیل کیلیے عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ اٹارنی جنرل

205

اسلام آباد(خبر ایجنسیاںٖ)سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس ہائی کورٹ میں ایک سزا کے خلاف اپیل چل رہی ہے، جس کے لیے پوری عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے معاملے کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان معاونت کے لیے پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں یہ عدالت کس کو تحقیقات کرنے کی ہدایت دے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی ہے، یوں لگتا ہے یہ پراکسی درخواست ہے جو انہوں نے دائر کی۔اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ درخواست گزار کسی اور کا کیس لڑ رہے ہیں، کبھی کبھی ہمیں پتا نہیں ہوتا کہ ہمیں کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عدلیہ کو ہراساں کرنے اور دباؤ ڈالنے کا سیزن ہے، کبھی کوئی آڈیو، کبھی کوئی بنایا گیا ڈاکیومنٹ ریلیز کیا جاتا ہے۔خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے 2017 کے واقعات کا ذکر کیا ہے، ایک وزیراعظم تھا جسے مبہم عدالتی حکم پر پھانسی بھی دی گئی، بینظیر کی حکومت واپس بحال نہیں کی جاتی تھی لیکن دوسری کردی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں بریف کیس بھر کر بھی دیے جاتے رہے، درخواست گزار نے ماضی میں جانا ہے تو درخواست میں ترمیم کریں، صرف 2017 میں کیوں جائیں، ذوالفقار علی بھٹو تک جاتے ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جلا وطن کرنے کی سہولت ایک وزیراعظم کو دی جاتی ہے تو بھٹو کو کیوں نہیں دی گئی؟ پتا لگنا چاہیے، چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو کیوں ہٹایا گیا؟ رقم سے بھرے ہوئے سوٹ کیس کسے جاتے رہے؟اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ جو بھی زندہ لوگ ہیں ان سب کا احتساب کر لیتے ہیں، صرف چْن کر ایک وزیراعظم کے لیے پراکسی بن کر کیوں لوگ عدالت آرہے ہیں؟ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک وزیراعلیٰ نے جج کو فون کیا، فیصلہ کالعدم ہو گیا لیکن کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں افراد کو نوکری سے نکال دیا گیا ان کی کوئی ویڈیو نہیں آئی، یہ پراکسی جنگ ہے، ایک شخص کے لیے بار بار ویڈیوز آ رہی ہیں، ہر کوئی آج کہہ رہا ہے کہ میرے پاس دو ویڈیوز ہیں چار ویڈیوز ہیں، سیکڑوں افراد کی زمینوں پر قبضہ ہو جاتا ہے اس کی کوئی ویڈیو نہیں آتی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج یوم حساب ہے، وکلا ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز کے کپڑے پھاڑ دیتے ہیں پھر ایک مذمت جاری کر دی جاتی ہے، بار نے ہی سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگائے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج کل ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے کوئی بھی آڈیو یا ویڈیو بن سکتی ہے، کوئی بھی آڈیو بنا کر کہہ دے اس پر تحقیقات کریں، اس آڈیو پر تحقیقات شروع کردیں تو زیر التوا اپیلوں پر کیا اثر پڑے گا؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں ساری چیزیں گھوم پھر کر ایک اپیل تک جاتی ہیں، یہ پراکسی وار صرف ایک کیس کے لیے لڑی جارہی ہے۔اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ میں خود ترمیمی درخواست دائر کرنے کو تیار ہوں ماضی سے احتساب کیا جائے، ماضی کے تمام معاملات کو بھی بحث کے لیے پارلیمنٹ بھیج دیں۔درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل مکمل نہ ہو سکے جس پر ہائی کورٹ نے سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کر دی۔