خواتین کا ترکے سے دستبردار ہونا

299

اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اور تحفہ ہے، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے بچوں پر رحم وشفقت کے معاملے میں مذکر ومؤنث میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو والدین بیٹے کی نسبت بیٹی سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ جاہلیت کی پرانی برائی میں مبتلا ہیں، اس طرح کی سوچ اور عمل کا دین اسلام سے کوئی تعلق اور رشتہ نہیں، بلکہ دینی اعتبار سے تو اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ بیٹی کو کم تر سمجھنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے سے ناخوشی کا اظہارکرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹی دے کر کیا ہے، ایسے آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تو کیا پوری دنیا بھی مل کر اللہ تعالیٰ کے اس اٹل فیصلے کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ یہ درحقیقت زمانہ جاہلیت کی فرسودہ اور قبیح سوچ ہے، جس کو ختم کرنے کے لیے رحمۃ للعالمینؐ نے والدین اور تربیت کرنے والوں کو لڑکیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کی نصیحت کی ہے۔
دین اسلام میں میت کے ترکے میں جس طرح مردوں کا حق مقرر ہے، اسی طرح عورتوں کا بھی حق مقرر ہے، ثبوت حق کے اعتبار سے بیٹے وبیٹی، شوہر وبیوی، والد، والدہ اور بھائی وبہن میں کوئی فرق نہیں ہے، البتہ مقدار میں کمی بیشی کا فرق ہے، مورث کے انتقال کے بعد مردوں کی طرح میراث میں سے عورتوں کا حق بھی پورا پورا ادا کرنا واجب اور ضروری ہے اور ان کو اپنے حصے سے محروم رکھنا حرام اور جرم عظیم ہے، عورتیں عام طور پر اپنا حصہ معاف کر دیتی ہیں یا ان سے معاف کروالیا جاتا ہے یا وہ اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کرتیں، درآنحالیکہ شرعی اعتبار سے عورتوں کا اپنا حصہ معاف کرنا معتبر نہیں، کیوں کہ عورتیں اپنا حصہ لوگوں کی طعن وتشنیع سے بچنے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں یا قریبی رشتے داروں کے دباؤ کی وجہ سے نہیں لیتی ہیں اور بادل ناخواستہ معاف کر دیتی ہیں، عورتوں کا ترکے سے اپنے حصے کا مطالبہ نہ کرنا یا رسمی طور پر ان سے ان کا حصہ معاف کروانے سے دیگر وارث ہرگز بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ عورتیں زمانہ جاہلیت کے رسم ورواج کے مطابق اپنا حصہ ترکے میں سے طلب کرنے کو معیوب اور باعث عار سمجھتی ہیں۔ قریبی رشتے داروں کی ناچاقی اور معاشرے کی دیگر افراد کی طعن وتشنیع سے ڈرتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کافرانہ اور جاہلانہ نظام نے ان مظلوم عورتوں کی زبان بند کر رکھی ہے، لہٰذا وارثوں پر واجب ہے کہ وہ ہر عورت کو اس کا حصہ پورا پورا ادا کریں، اگرچہ، عورتیں زیادہ ہوں اور جائیداد کم۔ لیکن وارث مرد، عورتوں کا حق ادا نہیں کرتے تو ان کے انتقال کے بعد دیگر ورثا پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اگر وہ عورتیں حیات ہیں تو ان کو، ورنہ ان کے ورثا کو ان کا پورا پورا حق ادا کرکے اس جرم عظیم سے بچیں۔