اردوان کے سودمخالف اقدامات، معاشی غارتگر ترکی کو جھکانے کیلیے سرگرم،یواے ای مدد کو آگیا

690

ترک حکومت کی جانب سے سود کی شرح میں کمی لانے کے اقدامات کے نتیجے میں لیرا کی قدر میں کمی سامنے آئی جسکے بعد متحدہ عرب امارات نے بڑا اعلان کردیا

متحدہ عرب امارات نے بدھ کو ترکی میں سرمایہ کاری کے فروغ اورمعاونت کے لیے 10 ارب ڈالر مالیت کے ایک فنڈ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔یواے ای کی سرکاری خبررساں ایجنسی وام کے مطابق یہ فنڈ ترکی میں توانائی اور صحت کے شعبوں سمیت تزویراتی سرمایہ کاری پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا۔

دوسری جانب ترکی کا لیرا اپنی قدر میں15 فی صد ریکارڈ کمی کے ایک روزبعد کچھ سنبھل گیا ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک بار پھر شرح سود میں کمی کے فیصلے کا دفاع کیا لیکن کرنسی میں اتارچڑھاؤ اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین اورسرمایہ کاروں کو اب بھی تشویش لاحق ہے۔

 رواں سال ڈالرکے مقابلے میں لیرا کی قدرمیں 40 فی صد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ صرف گذشتہ ہفتے کے آغاز سے اب تک 19 فی صد کمی ہوچکی ہے۔جسکے نتیجے میں ترک عوام اپنی کرنسی کی قدر میں شدید گراوٹ کے باعث پریشانی کا شکار ہیں اور جب گزشتہ روز لیرا کی قدر میں ڈالر کے مقابلے مزید 15 فیصد گراوٹ ہوئی تو مرکزی اپوزیشن پارٹی کے رہنما نے اسے ملک کیلیے سیاہ ترین ’تباہی‘ قراردیاتھا۔

کرنسی کے اس بحران میں ملکی اپوزیشن اور عالمی معاشی ماہرین ترکی کو جھکانے کے لیے سرگرم ہیں اور ہر طرح کے دائو پیچ آزمائے جارہے ہیں ایک طرف عالمی معاشی غارت گر اپنے جرائد و مضامین کے ذریعے ترکی کی معیشت کو ناکام دکھانے کے درپے ہیں اور اپنے اعداد و شمار کے ذریعے عالمی سطح پر ترکی کو معاشی بدحالی کا شکار دکھانا چاہتے ہیں جبکہ ادراون نے مصمم عزم کا اعادہ کرتے ہوئے سودکو معیشت سے بتدریج ختم کرنے کا اعلان کررکھا ہے

مقامی طور پر اپوزیشن کی ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رہنما کمال قلیج اوغلو کا کہنا تھا کہ ’ملک کی تاریخ میں ایسی تباہی کبھی نہیں آئی‘ اور کرنسی کی اس گراوٹ کا الزام ترک صدر رجب طیب اردوان پر عائد کیا جو 2003 سے ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔

اپوزیشن رہنما کا ترک صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس وقت آپ جمہوریہ ترکی کے لیے قومی سلامتی کا ایک بنیادی مسئلہ ہیں۔

رجب طیب اردوان نے شرح سود میں کمی کرنے کے لیے مرکزی بینک پر دباؤ ڈالا تاکہ برآمدات، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع بڑھیں۔تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے دوہرے ہندسوں کی افراط زر کو مزید ہوا ملے گی اور لیرا کی قدر میں کمی آئے گی اور ترکوں کی آمدنی مزید نیچے چلی جائے گی۔

انقرہ کے ایک مرکزی مال میں خریداروں کا کہنا تھا کہ وہ لیرا کی شرح سے نظریں نہیں ہٹا سکتے، جو منگل کے روز ڈالر کے مقابلے میں 13.45 فیصد تک گر گیا۔ایک سال پہلے ایک ڈالر 8 لیرا کے برابر تھا جو گزشتہ ماہ 9 اور گزشتہ ہفتے10 تک پہنچ گیا۔

سابق وزیر اعظم اور طیب اردوان کی حکمران اے کے پارٹی کے بانی منحرف رکن احمد داؤد اوغلو نے صدر کے معاشی اقدامات کوغفلت سے بڑھ کر غداری قرار دیا۔اپوزیشن رہنماؤں نے قدر میں بڑی کمی کے بعد کرنسی پر تبادلہ خیال کے لیے ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے، جو لیرا کی قدر میں اب تک ہونے والی دوسری سب سے بڑی کمی ہے۔

صدر ایردوآن نے مرکزی بنک پردباؤ ڈالا ہے کہ وہ برآمدات، سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے فروغ کے لیے جارحانہ اقدامات کرے۔لیکن کئی ماہرین معاشیات نے شرح سود میں کمی کوبے پروائی سے تعبیرکیا ہے۔

منگل کو لیرا کی قدرمیں کمی 2018 میں کرنسی بحران کے عروج کے بعد سب سے بڑی گراوٹ تھی جس کی وجہ سے شدید کسادبازاری اور تین سال سے کم معاشی ترقی اورافراطِ زر کی شرح دوہندسوں میں ہوگئی تھی۔

ترکی کے بنک دولت نے ستمبرسے اب تک شرح سودمیں مجموعی طورپر 400 پوائنٹس کی کمی کی ہے جس سے حقیقی پیداوارمنفی ہو گئی ہے کیونکہ قریباً دیگرتمام مرکزی بنکوں نے یا تو افراطِ زرکی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کے لیے پالیسی سخت کرنا شروع کردی ہے یا ایسا کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔

رواں صورتحال میں برسوں بعد دو مسلم ممالک ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پائے جانے والے تناؤ میں کمی آنا خوش آئند ہے۔اس موقع پر دونوں ممالک کے سربراہان نے اقتصادی تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ان معاہدوں میں دونوں ممالک کی اسٹاک ایکسچینج کے درمیان شراکت داری کا معاہدہ اور توانائی اور صحت کے شعبے میں تعاون کے معاہدے شامل ہیں۔

ترکی کو توقع ہے کہ اس کی کمزور معیشت کو متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری سے سہارا مل سکتا ہے۔ ترک معیشت کو اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔