مؤمن کی زندگی

235

یہ دنیا عارضی اور فانی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں کشش اور جاذبیت رکھی ہے اور انسان اس کرۂ ارض میں آکر اس کی رنگینیوں میں مسحور ہو کر اپنی اصل اور اپنے حقیقی مرجع کو بھول جاتا ہے اور غرور وتکبر میں مبتلا ہو کر سرکشی پر اتر آتا ہے، ایک مؤمن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنی چوبیس گھنٹے کی زندگی میں پوری کوشش کرے کہ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے وابستہ ہو، اس کی صبح شام، دن رات یاد الہی سے معمور ہو، تاکہ وہ دنیا میں رہ کر دنیا کے سحر سے محفوظ رہے، سرکشی اور غرور وتکبر میں مبتلا نہ ہو، خوشی ہو، یا غم دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی سیدنا محمدؐ کی سنت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے والا ہو، مؤمن کو خوشی وغم دونوں حالتوں میں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور نفس وشیطان کے شر سے اپنے آپ کو حتی الوسع بچانا چاہیے، تاکہ وہ انسان کو راہ راست سے نہ ہٹائیں اور ان کے فریب میں آکر ایک مسلمان اس دنیا کو آخری، حقیقی اور لازوال ٹھکانہ سمجھ کر اپنے تن من دھن کی بازی اس کے حصول میں نہ لگائے اور اس کے فریب میں مبتلا ہو کر زندگی کے قیمتی لمحات ضائع نہ کرے، اس لیے حدیث میں آتا ہے کہ ’’الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر‘‘ لہٰذا ایک مسلمان کو ہر وقت تیقظ اور بیدار مغزی کا مظاہر کرنا چاہیے، دنیا کی خوشی اور اس کا حصول چاہے کتنا ہی اعلیٰ پیمانے کا کیوں نہ ہو، اس پر غرور وتکبر اور گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، ہاں! اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ضرور ادا کرنا چاہیے اور اس کے جو شرعی تقاضے اور حقوق ہیں ان کو بہرحال بجا لانا چاہیے۔
اسی طرح حصول معاش اور کمانے کے ذرائع اختیار کرنا شریعت میں ممنوع نہیں ہے، لیکن ان میں اس طرح کی مشغولیت اور انہماک ممنوع ہے، جس سے عبادت الہی اور آخرت کی طرف توجہ متاثر ہو، دنیا طلبی کی حرص میں مبتلا ہو کر انسان اپنے خالق اور مسبب حقیقی کی یاد سے غافل ہو جائے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی تعریف وتحسین فرمائی ہے جن کو دنیا کی مشغولیت اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کرتی، وہ اپنی تجارت وغیرہ میں مشغول رہنے کے باوجود امور آخرت سے غافل نہیں ہوتے بلکہ دنیا کے ساتھ آخرت کی صلاح وفلاح کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔
سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے کہ میں جب اس کو اختیار کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کریں اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں، آپؐ نے فرمایا: دنیا سے زُہد اختیار کرو (یعنی اس کی محبت میں گرفتار نہ ہو، اس کی فضولیات سے اعراض کرو اور امور آخرت کی طرف متوجہ رہو) اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھے گا اور اس چیز کی طرف رغبت نہ کرو جو لوگوں کے پاس ہے (یعنی جاہ ودولت) لوگ تم سے محبت کریں گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)