میانمار: امریکی صحافی پر بغاوت اور دہشت گردی کا مقدمہ

232

میانمار: زیرحراست امریکی صحافی ڈینی فینسٹر پر دہشت گردی اور بغاوت جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں، وکیل کا کہنا ہےکہ اگر انہیں قصوروار پا یا گیا تو عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق میانمار کی جیل میں بند امریکی صحافی ڈینی فینسٹر پر حکام نے مزید دو مجرمانہ الزامات عائد کر دیے ہیں۔ فینسٹر ایک آزاد اخبار ‘فرنٹیئر میانمار’ کے مدیر ہیں اور اب انہیں بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے۔

ان کے وکیل کاکہناتھا کہ تازہ ترین الزامات ان کے موکل کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے،ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ انہوں نے مزید الزامات کیوں عائد کیے، ان پر مزید الزامات کا اضافہ یقینا اچھی بات نہیں ہے۔

”سینتیس سالہ فینسٹر کے خلاف نئے الزامات ایک ایسے وقت عائد کیے گئے ہیں جب سابق امریکی سفارت کار اور یرغمالیوں سے مذاکرات کے ماہر بل رچرڈسن نے میانمار کے دارالحکومت میں فوجی جنرل من آنگ ہلینگ سے چند روز قبل ہی ملاقات کی تھی۔میانمار کے فوجی جنرل من آنگ ہلینگ نے یکم فروری کو بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی منتخب حکومت کے سینیئر عہدیداروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

ڈینی فینسٹر آن لائن نیوز میگزین ‘فرنٹیئر میانمار’ کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں جس کا دفتر یانگون میں ہے۔ ان پر فوجی حکومت کے خلاف رائے کی حوصلہ افزائی، غیر قانونی ایسوسی ایشن اور امیگریشن قانون کی خلاف ورزی کرنے جیسے الزامات کے تحت پہلے سے ہی ایک مقدمہ چل رہا ہے۔

ان کے کیس کی سماعت بھی خفیہ رکھی جاتی ہے اور کوئی بھی تفصیل صرف ان کے وکیل کے ذریعہ ہی باہر آ پاتی ہے۔ پیر کے روز ہی جج نے ان کے کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ استغاثہ نے ان کے خلاف کافی شواہد پیش کر دیے ہیں اس لیے کیس جاری رہنا چاہیے۔

استغاثہ کے حالیہ گواہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پاس اس بات کا ریکارڈ موجود ہے کہ فینسٹر کو جب گرفتار کیا گیا تھا اس وقت وہ ‘میانمار نا’ کے لیے کام کر رہے تھے۔ تاہم کمپنی ‘میانمار نا’ اور ‘فرنٹیئر میانمار’ کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس جولائی میں ہی اپنی ملازمت چھوڑ دی تھی اور موجودہ کمپنی میں ملازمت اختیار کی تھی۔

فینسٹر کے وکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے عدالت کے سامنے تمام ثبوت و شواہد پیش کیے ہیں کہ وہ ‘فرنٹیئر میانمار’ کے لیے ہی کام کرتے ہیں۔ ان پر یانگون میں ہی ابتدائی تین مقدمات کی سماعت مختلف عدالتوں میں ہو رہی ہے۔ اس برس فروری میں میانمار کی فوجی جنتا نے بغاوت کرتے ہوئے آنگ سان سوچی کی جمہوری حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔

 آنگ سان سوچی فوجی بغاوت کے بعد سے اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت کے متعدد دیگر رہنما بھی گھروں میں نظر بند ہیں یا جیلوں میں قید ہیں۔فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں افراتفری کا ماحول رہا ہے اور اس کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں جبکہ فوج نے بغاوت کے خلاف احتجاج کو دبانے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔

ملک کی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور فوج احتجاج کرنے اور مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔ فوجی کارروائیوں میں اب تک 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔بغاوت کے بعد سے فوج اور میانمار کے متعدد نسلی باغی گروپوں کے درمیان بھی جھڑپیں جاری ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں شہریوں کو اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔