ماسکو کانفرنس برائے افغانستان

579

روس کی میزبانی میں افغانستان کے متعلق بین الاقوامی کانفرنس نے افغانستان کی تعمیر نو میں مدد دینے کے لیے جلد از جلد ایک ڈونرز کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بدھ کے روز روس کے دارالحکومت ماسکو میں 10 ممالک کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں میزبان ملک روس کے ساتھ چین، پاکستان، ایران، بھارت، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، کرغیزستان شریک ہوئے۔ روس نے بین الاقوامی کانفرنس میں امریکا کو بھی دعوت دی تھی، لیکن اس نے شرکت نہیں کی۔ جس پر روس نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان کی حکومت کی نمائندگی نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں ایک وفد نے کی۔ کانفرنس میں افغانستان کی تعمیر نو، معیشت کی بحالی اور افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے امور پر غور کیا گیا۔ روس نے کانفرنس میں شریک ممالک کی جانب سے عالمی برادری سے افغانستان کو مالی امداد دینے کی اپیل کی۔ کانفرنس میں شریک ممالک کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان کی تعمیر نو‘‘ کا سب سے زیادہ بوجھ ان طاقتوں کو برداشت کرنا ہوگا جن کی فوجیں گزشتہ 20 برسوں سے زیادہ عرصے تک اس ملک میں موجود رہیں۔ یہ بیان امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب واضح اشارہ ہے جو 20 برسوں تک افغانستان پر قابض رہیں اور پھر اپنا قبضہ ترک کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پسپائی کے بعد متوقع طور پر عالمی سیاسی منظرنامے پر تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔ اس تبدیلی کی قیمت افغانستان کے عوام نے دی ہے اور اب بھی ان کی مشکلات کے دن ختم ہونے میں نہیں آرہے ہیں۔ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے عالمی سفارت کاری جاری ہے اور اس حوالے سے روس نے اپنا کردار بڑھالیا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان کے بحران کا آغاز سوویت روس کے قبضے سے ہوا تھا اور اس وقت تک دعویٰ یہ تھا کہ روس نے ایک بار جس ملک پر قبضہ کرلیا وہاں سے واپس نہیں جاتا لیکن 9 برسوں میں ہی اسے احساس ہوگیا کہ افغانستان پر قبضہ سب سے بڑی غلطی ہے، ورنہ اس سے پہلے تک دنیا کو اس بات کا خطرہ تھا کہ روس سرگرم پانیوں تک بھی پہنچ جائے، افغانستان سے روس کی پسپائی نے سوویت یونین کو منہدم کیا اور عالمی جغرافیے میں نئی تبدیلی آئی۔ ایسی ہی تبدیلی افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی شکست کے بعد بھی آئی ہے۔ اس وقت عالمی منظرنامہ یہ ہے کہ دنیا نے ابھی تک افغانستان میں برسراقتدار ’’طالبان‘‘ کی حکومت کو جائز اور قانونی تسلیم نہیں کیا ہے۔ کانفرنس کے دوران میں بھی روس کے وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ہم نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن عالمی کانفرنس میں طالبان کی حکومت کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ انہوں نے مان لیا ہے کہ افغانستان کے اقتدار پر طالبان کا کنٹرول ’’نئی حقیقت‘‘ ہے۔ افغان طالبان کے نمائندوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا، نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی نے کہا کہ ’’افغانستان اب مستحکم ہے اور دوسرے ممالک کو افغانستان کی سرزمین سے کوئی خطرہ نہیں ہے، امارات اسلامی یقینی بنائے گی کہ کوئی خطرہ نہ ہو‘‘۔ اجلاس کے دوران میں طالبان کے نمائندوں کا بھارت کے نمائندوں سے بھی رابطہ ہوا ہے۔ بھارت کے علاوہ جو ممالک شریک تھے ان میں تمام ہی ممالک کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ ایک طرف امریکا افغانستان کا گھیرائو جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اسے افغانستان کے کسی بھی پڑوسی ملک میں فوجی اڈے دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے اس کے پاس سیاسی اور اقتصادی دبائو کا راستہ ہی بچا ہے۔ ماسکو میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا ہے کہ افغانستان کے عوام کی مالی اور اقتصادی امداد ضروری ہے۔ مستقبل میں انسانی بحران کا خدشہ لاحق ہے، اس سے قبل یورپی یونین بھی افغانستان کی مدد کا اعلان کرچکی ہے، لیکن وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور متبادل راستہ تلاش کررہی ہیں۔ امریکا نے طالبان سے معاہدہ کیا ہے اور دیگر طاقتیں بھی طالبان سے مذاکرات کررہی ہیں جو عملاً حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ طالبان نے بجا خبردار کیا ہے کہ افغانستان کو تنہا کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔