عورت ناقص الخلقت نہیں ہے

350

اللہ تعالی نے صاف کہا کہ اس نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، لیکن بعض مفسرین نے درج ذیل آیتوں کے تحت گفتگو کرتے ہوئے عورت کو ناقص الخلقت قرار دے دیا۔
ان دونوں آیتوں کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا:
’’اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اْس خدائے رحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں اْس کی ولادت کا مژدہ جب خود اِن میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اْس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ کیا (اللہ کی اولاد لڑکیاں ہیں) جو زیورات میں پلیں اور جھگڑے میں (اپنی بات) واضح نہ کرسکیں؟‘‘ (الزخرف: 17-18)
اس مفہوم کی رُو سے اللہ تعالی نے لڑکیوں کی یہ کم زوریاں ذکر کی ہیں۔ چناں چہ اس مفہوم کو بنیاد بناکر لڑکیوں کی کم زوریوں کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔ کہا گیا کہ: ’’جس کی زیورات میں پرورش کی جاتی ہے وہ ذات کی ناقص ہوتی ہے، کیوں کہ اگر اس کی ذات میں کمی نہیں ہوتی تو خود کو زیورات سے مزین کرنے کی ضرورت مند نہیں ہوتی‘‘۔ یہ بھی کہا گیا کہ: ’’عورت ناقص ہے، بچپن سے ہی اس کے نقص کی تکمیل زیورات پہننے سے ہوتی ہے، اور جب وہ بحث کرتی ہے تو اس کے پاس الفاظ نہیں ہوتے، بلکہ وہ عاجز وناکام ہوتی ہے، کیا جو ایسی ہو اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے؟ غرض عورت ظاہر وباطن اور صورت ومعنی کے پہلو سے ناقص ہوتی ہے‘‘۔ کسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی اصل خلقت کے اعتبار سے ناقص العقل اور ضعیف الرائے ضرور ہے‘‘۔
مفسرین کو یہ ساری باتیں اس وجہ سے کہنی پڑیں کیوں کہ ان سے آیت کی تفسیر کرنے میں غلطی ہوگئی۔
آیت کا درج ذیل ترجمہ ان تمام باتوں کی گنجائش ختم کردیتا ہے:
’’اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اْس خدائے رحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں اْس کی ولادت کا مژدہ جب خود اِن میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اْس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ گھٹا گھٹا سا رہتا ہے، کہتا ہے کہ کیا (وہ پیدا ہوئی ہے) جو زیورات میں پالی جاتی ہے اور بحث ومباحثے میں (اپنی بات) واضح نہ کرپاتی ہے‘‘۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی صحیح تفسیر کی ہے۔
یہ ان کے اس احساس کی تعبیر ہے جو لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر ان کے دل میں پیدا ہوتا اور ان کی گھٹن کا باعث ہوتا ہے۔ فرمایا کہ وہ اس سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ کیا وہ وجود میں آئی ہے جو زیوروں میں پلتی اور مفاخرت کے مقابلوں میں بالکل بے زبان ہے۔ یہ امر یہاں اچھی طرح ملحوظ رہے کہ عورت پر یہ تبصرہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان اہل عرب کی طرف سے ہے جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ عام طور پر مفسرین نے یہ خیال کیا کہ یہ تبصرہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ یہ غلط فہمی لوگوں کو کلام کے سیاق پر غور نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔ (تدبر قرآن)
مفسرین سمجھے کہ یہ اللہ نے لڑکیوں کے بارے میں کہا ہے، اس لیے اس کی توجیہ کرنی ضروری ہے۔ حالاں کہ وہ جاہلی معاشرے میں اس فرد کے احساسات ہیں جس کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تھی۔ اس رائے کے حق میں ایک مضبوط دلیل یہ ہے کہ مشرکینِ عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے لیکن وہ یہ نہیں مانتے تھے کہ فرشتے انسانی لڑکیوں کی طرح ہوتے ہیں، زیورات میں پلتے ہیں اور اپنی بات کہہ نہیں پاتے ہیں۔ یہ اوصاف تو وہ اپنے گھر پیدا ہونے والی لڑکیوں میں دیکھتے تھے۔