کابل بم دھماکا: بھارتی امریکی داعش کی کارروائی

420

معروف ذاکر علامہ حسن ترابی نے اپنی بم دھماکے میں ہلاکت سے ایک ہفتے قبل اور نشتر پارک بم کے بعد میری میزبانی میں منعقد ’’ایوان وقت‘‘ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مساجد اور امام بارگاہوں میں بم دھماکا اور فائرنگ ایک ہی گروپ ملوث ہے اور ان دھماکوں مقصد یہ ہے کہ شیعہ اور سنی ایک دوسر ے کی گردنیں کاٹنے لگیں اور ملک میں ’’شیعہ سنی فساد برپا ہو جائے‘‘ آج یہی صورتحال کابل میں ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں عید گاہ مسجد کے قریب میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم دو سو افراد کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس سلسلے میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر کہا کہ عید گاہ مسجد کے قریب دھماکا ہوا جس میں متعدد ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ تاہم انہوں نے اور طالبان کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان قاری سعید خوستی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو میں کہا کہ دھماکے میں ہلاکتوں اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
اے ایف پی، بی بی سی، طالبان کے ترجمان اور وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا تھا کہ تین اکتوبر بروز اتوار کی دوپہر کابل کی عید گاہ مسجد میں ان کی والدہ کی وفات پر ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ جس میں انہوں نے اپنے تمام دوستوں اور عزیزوں کو آنے کی دعوت دی تھی۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عید گاہ مسجد کے قریب دھماکے اور اس کے بعد فائرنگ کی آواز سنی ہے۔ یاد رہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے دو ہفتے بعد ہی کابل کے ہوائی اڈے پر بھی دھماکا ہوا تھا، جس کی ذمے داری شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ خراسان نے قبول کی تھی۔ اس دھماکے میں بچوں سمیت 200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 13 امریکی فوجی بھی مارے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر میں سید آباد مسجد میں لاشیں اور ملبہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مسجد مقامی شیعہ برادری کی ہے۔ دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ شدت پسند گروہ جن میں مقامی دولت ِ اسلامیہ کا گروپ بھی شامل ہے شیعہ برادری کو پہلے بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے خودکش بمبار نے خود کو اس وقت دھماکے سے اڑایا جب لوگ جمعے کی نماز کے لیے مسجد میں اکٹھے تھے۔ حملے کے وقت 300 سے زیادہ افراد مسجد میں موجود تھے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ اموات کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ دولت ِ اسلامیہ خراسان، جو کہ دولت ِ اسلامیہ شام کی ایک مقامی شاخ طالبان کے خلاف ہے، اور اس نے حال ہی میں کئی بم حملے کیے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ملک کے مشرقی حصے میں کیے گئے ہیں۔ دولت ِ اسلامیہ خراسان نے اگست میں کابل ائر پورٹ پر تباہ کن بم دھماکے کیے تھے۔
ماضی میں بھی یہ گروہ متعدد مرتبہ افغانستان کی شیعہ اور سنی مساجد، امام بارگاہوں، اسپورٹس کلبوں اور اسکولوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں آئی ایس نے طالبان کے خلاف حملوں کو بھی تیز کر دیا ہے۔ آئی ایس آئی ایس نے کابل میں ایک نماز جنازہ کو نشانہ بنایا تھا جس میں کئی سینئر طالبان رہنما شرکت کر رہے تھے، اور مشرقی صوبوں ننگرہار اور کنڑ میں بھی کئی چھوٹے حملے کیے گئے ہیں۔ یہ علاقے پہلے آئی ایس کا گڑھ ہوا کرتے تھے۔ اگر یہ آئی ایس کی طرف سے کیا گیا ہے، تو یہ دولت ِ اسلامیہ خراسان کی ملک کے شمال میں سرگرمیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئی ایس کے درجنوں ارکان کو گرفتار کیا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس گروہ سے روابط کے شبہ میں کئی ایک کو ہلاک بھی کیا گیا ہے، تاہم وہ آئی ایس کے خطرے کو کھلے عام اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ بہت سے افغان باشندوں کو یہ بھی امید تھی کہ طالبان کے آنے سے آمرانہ حکومت تو آئے گی لیکن اس کے ساتھ نسبتاً امن بھی ہو جائے گا۔ لیکن دولت اسلامیہ خراسان طالبان کے امن کے وعدے کے خلاف ایک بڑا خطرہ ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان غیر ملکی افواج کے انخلا کے ایک معاہدے کے بعد طالبان نے 15 اگست کو ملک کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اس سے بیس سال قبل 2001 میں امریکی افواج نے طالبان سے اقتدار چھینا تھا۔ اگست 2021ء میں بھی کابل ائرپورٹ کے باہر دھماکا ہوا تھا اور وہاں کے عوام تین روز قبل ہی سے مسلسل یہی سن رہے تھے کہ ائرپورٹ پر دھماکے کا خطرہ ہے اور پھر وہ ہو بھی گیا۔ کابل ائرپورٹ پر دھماکے کے الرٹ ہمیں طالبان، امریکی انٹیلی جنس، اپنے دفتر کی جانب سے ایڈوائزری ہر سطح پر موصول ہو رہے تھے۔ اس وقت پورے ائر پورٹ پر امریکا کا قبضہ تھا۔
دولت ِ اسلامیہ خراسان اور دولت ِ اسلامیہ شام کی کارروائی ان ملکوں میں تیز ہو جاتی جہاں سے امریکا کا گزر ہو تا اس سلسلے میں شام اور عراق کی مثال دی جا سکتی۔ اب یہی کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے۔ ہم نے اپنے انہیں کالموں میں لکھا تھا کہ ’’داعش‘‘ کے بھارت اور امریکا سے بہت گہرے تعلقات ہیں اور یہ دونوں ممالک اسلامی ممالک کے خلاف داعش کو استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور یہ اب افغانستان کا امن بھی برباد کرنے اور طالبان کو بد نام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے ضروری ہے طالبان اس طرح کے گروپوں کے لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں اور ان کے سہولت کار ملکوں کو بھی بے نقاب کریں تاکہ افغانستان کا امن بحال اور اسلامی نظام کا قیام ممکن ہو سکے۔