امریکی سینیٹ میں ’’فیس بک‘‘ کا احتساب

478

امریکا کے حکمران طبقے جن کے پاس مالی وسائل، فوجی و نیوکلیئر طاقت اور علم کے حصول کے لیے معیاری جامعیات موجود ہیں، ان مراعات کو اپنی حد تک محدود رکھ کر دنیا کو امن کے ساتھ رہنے دے گا یا جنگوں اور تصادم کے ذریعے اپنے مفادات کو پورا کرتا رہے گا؟ اس کے دانشور امریکی ریاست کو سپرپاور بنا کر اسے عالمی تسلط دلانا چاہتے ہیں اور یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ ’’امریکا اب مکمل طور سے آزاد ہے کہ جہاں چاہے جنگ کرے اور اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرے۔ یہی وہ رویہ ہے جو امریکی سامراج کو امن ِ عالم کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ لیکن یہ بات مان لینا ہی درست ہوگا کہ امریکی سینیٹ اپنی تمام تر خامیوں، جنگوں کی حمایت اور دنیا بھر میں ظالم سینیٹ کہلانے کے باوجود آج بھی قانون کی بالادستی کو اہم سمجھتی اور اس کی کوشش یہی ہے کہ دنیا میں قانون کی بالادستی کو اہمیت دی جائے۔ جی ہاں! اسی امریکی سینیٹ نے ایک ارب پتی جو کیلی فورنیا میں 1.5 ٹریلین ڈالر کی کمپنی چلاتے ہوں اور ان کا عالمی معیشت کے لیے اہم کردار ہے، تو جب وہ کیپٹل ہل (امریکی کانگریس) میں پیش ہوں گے تو سینیٹرز ان کو اپنے سوالات سے کس طرح سے پریشان کر سکتے ہیں۔ ’’فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ‘‘ کو امریکی سینیٹ نے طلب کر کے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ امریکا میں ’’کیپٹل ہل‘‘ کس قدر اہمیت کا حامل ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے جہاں چند دن قبل امریکا کے آرمی چیف اور وزیرِ دفاع اور دیگر اعلیٰ حکام بھی احتساب کے لیے حاضری دے چکے ہیں۔
امریکی سینیٹ نے فیس بک کی سابق مینیجر فرانسس ہوگن کی سینیٹ آف امریکا سے خطاب کے بعد یہ مطالبہ کیا ہے فیس بک کے سی ای او ’’مارک زکر برگ‘‘ کو فوری طور پر سینیٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا جائے تاکہ ان سے معلوم کیا جائے ان کو اس بات کا اختیار کس نے دیا ہے وہ مرضی سے ایسے اقدامات کریں جن سے دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصانات کا خدشہ ہو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس بات کا ذکر کرتے ہوئے پورے عالم ِ اسلام کے حکمران خوفزہ ہوتے ہیں اسی بات کو فیس بک کی سابق مینیجر فرانسس ہوگن نے امریکی سینیٹ کو بتایاکہ فیس بک بھارت اور میانمر میں مسلمانوں پر مظالم اور کشمیر و فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو چھپاتا ہے۔ انہوں نے امریکی سینیٹ کو یہ بھی بتایا کہ طالبان کی کم و بیش تمام ہی پوسٹ کو فیس بک سے ہٹا دیا جاتا ہے اور کشمیریوں پر مظالم کی پوسٹ لگانے والوں کے اکائونٹ بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے آسٹریلیا کی حکومت نے 2020 میں فیس بک اور گوگل جیسی بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے کے سلسلے میں بعض سخت قوانین وضع کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کے تحت فیس بک اور گوگل کو اپنی سائٹ پر مواد استعمال کرنے کے لیے مقامی میڈیا اداروں کو رقم دینی پڑتی ہے۔ آسٹریلیا کی حکومت کا مقصد ان پلیٹ فارمز میں مزید شفافیت لانی ہے جو ایسے مواد کی رینکنگ کے لیے الگورتھم سسٹم کا استعمال کرتے ہیں۔ پیج ریپلیسمنٹ الگورتھم کا ہدف صفحہ غلطیوں کی تعداد کو کم کرنا ہے تاکہ مجموعی کارکردگی میں اضافہ ہوسکے۔
آسٹریلیا کے اس قانون پر گوگل نے بھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون سے جہاں فرد کی نجی پرائیویسی خطرے میں پڑ سکتی ہے وہیں آسٹریلیائی باشندے جس طرح کمپنی کی خدمات مفت استعمال کرتے ہیں اس سے وہ بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ لیکن مقامی میڈیا اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے اس بارے میں حکومتی اقدامات کی حمایت کی ہے۔ آسٹریلیا میں ’سیو جرنلزم پروجیکٹ‘، نامی ادارہ صحافت پر فیس بک اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اثرات کا جائزہ لینے کا کام کرتا ہے۔ اس ادارے کے بانیوں میں سے ایک جان اسٹینٹن کا کہنا ہے، فیس بک کے مالک مارک زکربرگ اس بات سے خوش ہیں کہ فیس بک غلط اطلاعات اور جعلی خبریں پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے تاہم بظاہر ان پر اس بات کا کوئی اثر نہیں پڑتا کہ فیس بک اصل اور اہم خبروں کو یکسر ترک کر دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے حکام کو ایسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر لگام لگانے کی ضرورت ہے جو آن لائن مارکیٹ پر پوری طرح سے قابض ہیں۔
امریکا میں یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔ امریکی انتخابات 2020ء سے محض پانچ دن پہلے گوگل کی پیرینٹ کمپنی ایلفابیٹ کے بھارتی امریکی سی ای او سندر بچائی نے اپنے ساتھی سی ای او فیس بک کے مارک زکربرگ اور ٹوئٹر کے جیک ڈورسی کے ساتھ ایک ویڈیو چیٹ میں حصہ لیا جس میں نفرت انگیز مواد، غلط معلومات اور کانٹینٹ ماڈریشن پر بات چیت ہوئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے سینیٹرز پر مشتمل ایک پینل نے تینوں ٹیک جائنٹس سے ان کے دیگر پلیٹ فارمز کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ اس طرح امریکی سینیٹ ان سے متعدد مرتبہ پوچھ گچھ کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہی رہتے ہیں۔
اب اس حوالے سے پاکستان کا بھی جائزہ لیتے جہاں 2019ء میں فیس بک مطابق اس نے پاکستان سے چلائے جانے والے 103 ایسے انفرادی اور اجتماعی (گروپ) اکاؤنٹ اور صفحات بند کر دیے ہیں جو کمپنی کے بقول ’منظم طریقے سے غیرمصدقہ رویے‘ کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ یہ دور تھا جب بھارت میں مودوی حکومت نے 5اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر بھارت میں شمولیت کا بل پاس کرایا تھا۔ پاکستان میں 24 صفحات، 57 فیس بْک اکاؤنٹس، سات گروپ اکاؤنٹس اور 15 انسٹاگرام اکاؤنٹس شامل ہیں۔ فیس بک کے مطابق کمپنی تقریباً سات سو ایسے اکاؤنٹس اور صفحات کو بھی اپنے پلیٹ فارم سے اتار رہی ہے جن کا تعلق انڈیا کی کانگریس پارٹی سے ہے۔ لیکن بی جے پی کے اکاؤنٹس نہ صرف کھلے رہے بلکہ ان پر مسلمانوں پر مظالم کی کارروائی پوسٹ ہوتی رہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں فیس بک کے چند افسران نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی حکومت کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی تھیں اور فیس بک کی پاکستان میں موجودنیٹ ورک بڑھانے پر غور و خوض کیا گیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ فیس بک سے ماضی میں حکومت پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں اور نہ صرف حکومت بلکہ سول سوسائٹی اور دیگر تنظیموں سے بھی رابطے میں رہتا ہے۔ امریکی سینیٹ اور عالم ِ اسلام و پاکستانی حکومت کے درمیان یہی فرق ہے۔ اسلام، ختم نبوت اور پاکستان و مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے والے والوں کو اسلامی حکومتیںسر پر بیٹھاتی ہیں۔ فیس بک کے خلاف امریکی سینیٹ میں کارروائی اور فیس بک کی سابق مینیجر فرانسس ہوگن اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کی ہمدردی میں شاید یہ سب کچھ نہیں کررہی ہوں لیکن اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کی ہمدردی میں اگر کوئی کچھ بلند آواز میں بول رہا ہے تو وہ سب صرف کفر کے ایوانو ں ہی میں سنائی دیتی ہے۔ ورنہ مسلمان حکمران تو مسلمانوں اور اسلام سے دور نظر آتے ہیں۔