ضبط نفس

388

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: پہلوان وہ نہیں جو مقابلے جیت لے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصّے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ (صحیح البخاری)
اس حدیث میں حقیقی بہادری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کہیں قوی مومن کو ضعیف مومن سے بہتر قرار دیا گیا ہے اور ایسے طریقے بتائے گئے، جن سے جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن حقیقی قوت غصّے کے وقت نفس کو قابو میں رکھنا ہے ورنہ پہلوان اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنی طاقت و قوت کے بل پر اپنے مدمقابل کو پچھاڑ دے۔ غصّے کے وقت چہرہ سرخ ہوجانے کے باوجود جو ضبط نفس سے کام لے، دراصل وہی پہلوان ہے۔
انسان غصّے کی حالت میں ایسے کام کر بیٹھتا ہے جس پر بعد میں وہ بہت نادم ہوتا ہے۔ بسا اوقات جب وہ غصّے پر قابو نہیں رکھ پاتا تو ایسے نقصانات سے دوچار ہو جاتاہے کہ جن کی تلافی بڑی مشکل سے ہو پاتی ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ غصّے کی حالت میں آدمی دوسرے کو بْرا بھلا کہہ دیتا ہے، باہم گالم گلوچ کرلیتا ہے اور شدید غصّے میں دوسرے کو مار بھی دیتا ہے، سامان کو توڑ پھوڑ دینا اور نقصانات کر دینا اس حالت میں معمولی کام سمجھا جاتا ہے۔
احادیث میں غصّے پر قابو پانے کی مختلف ترکیبیں بتائی گئی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے تو اسے چاہیے کہ بیٹھ جائے اور پانی پی لے۔ جہاں تک ہوسکے غصّے کو پی جانے کی کوشش کرے تاکہ فوری طور پر طاری ہونے والی غصّے کی کیفیت سے دیرپا نقصانات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔
شیطان کھلم کھلا انسان کا دشمن ہے۔ اس لیے وہ ایسے حربے استعمال کرنے سے نہیں چْوکتا جس میں انسان کا سراسر خسارہ ہو۔ نفس کو بے قابو کردینا اس کی عین خواہش ہوتی ہے۔ اسی لیے رسول اللہؐ نے نرمی و نرم گفتاری کو پسند فرمایا ہے۔ معافی و درگزر کی ترغیب دی ہے۔ یہ ساری خوبیاں غصّہ پیدا ہی ہونے نہیں دیتی ہیں۔
معاشرے کا مفاد جہاں بہت سی خوبیوں کے اختیار کرنے میں ہے، وہیں بہت سی بْرائیوں سے دْور رہنے میں بھی ہے۔ غصّہ بہرحال ایک بْرائی ہے۔ معاشرے کو اس سے پاک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اس سے کوسوں دْور رہے۔ غصّے کے وقت نفس کو قابو میں رکھنا بڑی خوبی کی بات ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر معاشرے کے سبھی افراد اسلام کی تعلیم اور مزاج سے بخوبی واقف ہوجائیں اور اس کے مطابق زندگی گزارنے لگیں تو معاشرے کو مثالی بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو غصّے پر قابو پانے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین