ایسے چیتے صحافی کہاں ملتے ہیں…؟

867

حساب کتاب گنگ‘ سپر کمپیوٹر آن ہو گیا ہے۔ ہم نے 39 سال صحافت میں بھاڑ جھونکا ہے۔ ہم کو معلوم ہی نہیں تھا کہ دنیا کے 117 ممالک میں ایسے 6 سو چیتے موجود ہیں جو روزانہ مالی معاملات پر سیکڑوں سے زیادہ صفحات کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کر سکتے ہیں۔ پنڈورا پیپرز کے نام سے پاناما سے بڑا مالیاتی اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ اس میں 117 ممالک کے 150 میڈیا ہائوسز کے 600 صحافیوں نے دو سال تک تحقیق کی ہے پھر رپورٹ جاری کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ تاریخ میں اتنی بڑی ٹیم نے کسی تحقیق پر کام نہیں کیا اور اتنا ڈیٹا پہلے ریلیز نہیں کیا۔ یہ پاناما سے زیادہ دستاویزات ہیں۔ ایک بات واضح کر دیتا ہوں اس تجزیے کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ پنڈورا لیکس جھوٹ ہے یا اس میں جو نام یا انکشافات ہیں وہ غلط ہیں۔ بلکہ اس کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے‘ وہ بتا رہا ہے کہ کام کہیں اور ہوا اور کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ پکڑا دیا گیا اور اس نے اسے جاری کر دیا۔ یعنی یہ کمپنیاں جس وقت رجسٹر ہوئی ہیں کمپیوٹر پر اس کا ڈیٹا ڈالتے ہی درجنوں خفیہ اداروں کے پاس سارا ڈیٹا جمع ہو جاتا ہے۔ پاناما لیکس اور پنڈورا لیکس سے پہلے وکی لیکس نے بھی کروڑوں دستاویزات انٹرنیٹ پر ڈالی تھیں۔ یہاں کئی سوالات بیک وقت ہیں۔ ہمیں اپنے تقریباً 39 سالہ صحافتی سفر میں ایسے چیتے صحافی دنیا میں کہیں نہیں ملے جو اتنی صلاحیت رکھتے ہوں کہ اس قدر زیادہ دستاویزات پڑھ سکتے ہوں اور اس کی رفتار وقت کی رفتار سے زیادہ تیز ہو۔ دوسری بات یہ کہ آف شور کمپنی ہو یا سوئس بینک یا کوئی بھی خفیہ اکائونٹ‘ یہ سب لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی معلومات مکمل محفوظ ہیں‘ کسی کے پاس یہ ڈیٹا نہیں جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یا تو یہ کمپنیاں ڈیٹا فروخت کرتی ہیں یا کوئی یہ کہے کہ ڈیٹا چوری ہو جاتا ہے تو یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن یہ تو طے ہو گیا کہ ڈیٹا محفوظ نہیں۔
ہمارا مسئلہ پنڈورا پیپرز میں شامل سابق فوجیوں‘ پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ‘ پی پی پی اور بیورو کریٹس یا میڈیا مالکان کی کمپنیاں نہیں ہیں۔ ہمارا مسئلہ ایک تو یہ ہے کہ سیاست دانوں اور فوجیوں کا کام ہی نہیں کہ آف شور کمپنیاں بنائیں۔ لیکن ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو حساب کتاب بتایا گیا ہے اس کو ہضم نہیں کر پا رہے۔ جناب ایک کروڑ 19 لاکھ فائلیں جاری ہوئی ہیں۔ یہ مالی معاملات کی فائلیں ہیں‘ حساس نوعیت کی ہیں اگر بہت زیادہ رعایت کر دی جائے تو بھی کم از کم 25 صفحات کی تو ایک فائل ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کُل ملا کر 29 کروڑ 75 لاکھ صفحات ہیں۔ اب آپ 600 چیتے صحافیوں میں یہ صفحات تقسیم کر دیں تو ہر صحافی کو 4 لاکھ 95 ہزار‘ 833.333 صفحات ملیں گے۔ اب دو سال تک ہر صحافی ان حساس معاملات پر کام کرتا ہے تو اسے روزانہ 679,223,744 صحافت پڑھ کر ان کا تجزیہ کرنا اور رپورٹ تیار کرنی ہوگی۔ یہ سپر کمپیوٹر سے بھی زیادہ تیز رفتار صحافی ہوگا۔
ہمارا سوال یہی ہے کہ وہ صحافی کہاں پایا جاتا ہے جو روزانہ 679 صفحات پڑھ کر اس کا تجزیہ بھی کرتا ہے۔ اس کو یوں دیکھ لیں کہ ایک دن میں 1,440 منٹ ہوتے ہیں یعنی وہ دو منٹ فی صفحہ کے حساب سے پورا دن دستاویزات پڑھتا رہے گا تو پھر کھانا‘ سونا‘ چائے‘ آرام‘ بیت الخلا وغیرہ اور ہاں… آنکھیں جھپکانا۔ اگر نہیں جھپکائی تو آنکھ ہی بے کار ہوجائے گی اور دیگر مصروفیات کیا یہ صحافی دو سال تک ان تمام چیزوں سے آزاد تھے؟ یقینا ایسا ہو نہیں سکتا تو پھر یہ 6 سو صحافی نہیں ہو سکتے‘ یہ 6 ہزار تو ہونے چاہیے تھے لیکن بتایا تو یہی گیا ہے کہ 6 سو صحافیوں نے دو سال تک یہ تحقیق فرمائی ہے۔ جہاں تک معلومات خفیہ رہنے کا تعلق ہے تو آج کے دور میں جو چیز الیکٹرونک نظام کے حوالے کی گئی اس کے غیر محفوظ ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ دنیا بھر میں ڈیٹا چوری ہوتا ہے۔ تاہم چوری ہونا الگ بات ہے جو ڈیٹا پنڈورا پیپرز نے جاری کیا ہے اس میں تو ڈیٹا چرانے کی بات نہیں کی گئی بلکہ ان کی محنت سے یہ ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے پھر کون سی کمپنی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس کے کلائنٹس کا ڈیٹا محفوظ رہے گا۔ ہمیں تو اس بات پر اعتبار نہیں ہے کہ ڈیٹا چوری کیا گیا ہے یا کسی نے کمپنیوں کے پروفائل چیک کرکے ان کا پورا لین دین‘ بینک اکائونٹ وغیرہ اچھی طرح چیک کیا پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ مالک کون ہے اور کب سے کمپنی چلی رہی ہے۔ بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ ڈیٹا قصداً فروخت کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مثال کافی ہوگی۔ 2004ء میں امریکا کے تحقیقاتی صحافیوں کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے امریکا جانے کا موقع ملا۔ مختلف اداروں میں اس قسم کی انویسٹی گیٹو صحافت پر لیکچرز واقعات وغیرہ سنتے رہے لیکن وال اسٹریٹ جرنل کے دورے کے موقع پر بار بار ڈینیل پرل کا ذکر آیا اور اس کے قاتلوں کے گرفتار نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ہم نے سوال کیا کہ اس کے اصل قاتلوں کا کچھ پتا چلا؟ تو جواب نہیں ملا… بلکہ خاموشی اور کندھے اچکائے گئے۔ پھر وہی صاحب باہر نکلتے ہوئے راہداری میں قریب آئے اور کہا کہ اگر ایسی کوئی رپورٹ ایف بی آئی کے پاس بھی ہوتی تو جس افسر کے پاس ہوتی وہ خود یہ رپورٹ بیچ چکا ہوتا۔ ہم نے کہا کہ معلومات کا تحفظ ڈیٹا سیکورٹی…؟ تو اس نے کہا ڈالر… لوگ ڈالر کے لیے سب کچھ بیچ دیتے ہیں‘ فوجی ہو یا صحافی۔ یہ خبر چھپ نہیں سکتی لہٰذا اطمینان رکھیں کوئی خبر نہیں ہے۔ ہم نے دوسرے امریکی صحافیوں سے تصدیق کی۔ انہوں نے بھی تردید نہ کرنے کے انداز میں اس امکان کو رد نہیں کیا اور کہا کہ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ تو پھر ڈالر ضرور استعمال ہوئے ہیں اور اب کیا ہو رہا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن ایسے چہیتوں سے یا ایسی خبر جاری کرنے والوں سے ملنا تو ضروری ہے… ہم بھی کچھ سیکھ لیں گے۔