آذری سرحد پر فوجی مشقیں ایران کی غلطی؟

439

کاراباخ جنگ کے دوران ایران نے آذربائیجان کی علاقائی سالمیت کی بحالی کی واضح طور پر حمایت کی تھی اس کی وجہ ہم نے سالِ گزشتہ اپنے انہیں کالموں میں لکھی تھی کہ: ’’19صفر المظفر 1442ھ کو ساری رات ایرانی کابینہ کا اجلاس جاری رہا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ میں ایران آذربائیجان کی علاقائی سالمیت کی بحالی کی حمایت کرتا رہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی تھی کہ امام حسین کے چہلم 1442ھ کے موقع پر ایران میں موجود آذری بہت بڑا جلوس نکالنے کی تیاری مکمل کر چکے تھے اور اگر سالِ گزشتہ 19صفر کو امام کے چہلم سے ایک دن قبل ایرانی حکومت نے آذربائیجان کی حمایت نہ کی ہوتی تو ایرانی حکومت کو بہت بڑے ہنگامے کا سامنا کر نا پڑتا۔ جس سے بچنے کے لیے ایرانی حکومت نے ایک دن قبل آذربائیجان کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن اس دوران بھی آرمینیا کے لیے فرانس اور دیگر یورپی ممالک کی عسکری امداد ایران کے رستے آرمینیا پہنچائی جارہی تھی‘‘۔
رواں سال ستمبر میں آذربائیجان، پاکستان اور ترکی کی مشترکہ فوجی مشقوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا جس کے بعد آذربائیجان کی سرحد پر ایران نے اپنی فوجی طاقت بڑھا دی تھی اور اس میں مزید اضافہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب وہ یہاں اپنی فوجی مشقیں کر رہا ہے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایران اور جمہوریہ آذربائیجان کے مابین مختلف مسائل پر ایک بحران کھڑا ہوا ہے جسے بعض ایرانی عہدیدار باکو میں غیر ملکی موجودگی سے منسوب کرتے ہیں۔ ایران آذری اختلافات اگست کے اوائل میں شروع ہوا جب ایران میں سوشل میڈیا صارفین نے گوریس کپان ہائی وے پر آذربائیجانی افواج کی ایرانی ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاع دی۔
ایرانی ٹرک ایران سے آرمینیا سامان لے کر جا رہے تھے لیکن 2020ء کی جنگ کے دوران کاراباخ کی سرحدوں میں تبدیلی کی وجہ سے آذربائیجان کے علاقے سے گزرنا پڑا۔ تہران ٹائمز کے مطابق آذربائیجان نے مبینہ طور پر ایرانی کمرشل ٹرکوں پر حیران کن ٹیکس عائد کیا جس پر ایرانی تاجروں کی طرف سے تنقید کی گئی۔ گیارہ اگست 2021ء کو، آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے ایران سے غیر قانونی سفر کے حوالے سے سامنے آنے والے ناپسندیدہ حقائق کی جانب توجہ مبذول، اور آذربائیجان کے علاقے کاراباخ میں ایران سے تعلق رکھنے والی مختلف گاڑیوں کے حالیہ مسلسل داخلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ایران غیر محسوس طریقے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھا جب کہ آذربائیجان نے ایران کی تجارتی گاڑیوں کے لیے شاہراہ کو بالآخر بند کر دیا۔ اگست کے آخر میں ایک مقامی ایرانی عہدیدار نے آذربائیجان کے اسٹرٹیجک روڈ کی بندش کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گوریس کپان روٹ کے آذربائیجانی حصے کے اندر 120 سے زائد ایرانی ٹرک اور مسافر کاریں روک دی گئی تھیں۔
العربیہ نیوز کا کہنا ہے کہ ایران کے بعد آذربائیجان کے ساتھ سرحدی علاقے میں فوجی مشقوں کا اعلان ترکی نے بھی کر دیا ہے ایران کی سرحد سے متصل علاقے میں آذربائیجان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ایران نے گزشتہ ہفتہ کو آذربائیجان کی سرحد کے ساتھ فوجی مشق کی تھی اور باکو نے اس کے اقدام پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ ترک وزارت ِ دفاع کی ترجمان نے ان مشقوں کے دو روز بعد ہی ’’بھائی چارہ فوجی مشق 2021ء یہ مشقیں 5 سے 8 اکتوبر تک آذربائیجان کے سرحدی شہر نخچ یوان میں کی جائے گی‘‘ اور اس میں ترکی اور آذربائیجان کی مسلح افواج شرکت کریں گی۔ ایران کو آذربائیجان کے مغربی ممالک اور بالخصوص اسرائیل کے ساتھ تعلقات پراعتراض ہے۔ اس کی برّی فوج کی مشقوں میں توپ خانے، ڈرونز اور ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہان کا کہنا تھا کہ ’’ہم اپنی قومی سلامتی کے خلاف اسرائیل کی اپنی سرحدوں کے ساتھ موجودگی اور سرگرمی کو برداشت نہیں کرتے۔ ہم اس سلسلے میں ہر طرح کا حق استعمال کریں گے۔
آذربائیجان اور اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں اپنے فوجی اتحاد کو مضبوط کیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مہیا کردہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل ڈرونز نے آذربائیجان کو گزشتہ سال نگورنو کارا باخ کے متنازع علاقے میں آرمینیا کے خلاف جنگ میں مدد دی تھی۔ دوسری جانب ایران نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ گزشتہ سال آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مسلح تنازع کے دوران میں داعش کے جنگجوؤں کو بھی خطے میں لایا گیا تھا۔ ایرانی میڈیا سے گفتگو میں ایران کی برّی فوج کے بریگیڈیئر جنرل کیومارس حیدری کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیل کے آلہ کاروں کی کھلم کھلا اور خفیہ موجودگی اور علاقائی ممالک میں داعش کے دہشت گردوں کی نمایاں تعداد میں موجودگی کا امکان اس مشق کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایران اور آذربائیجان کے درمیان واقع سرحد قریباً 700 کلومیٹر (430 میل) طویل ہے۔ ایران کی کل آبادی 8کروڑ 39لاکھ 9ہزار ہے جس میں ایک کروڑ سے زائد کی آبادی آذری نسل کے افراد پر مشتمل ہے۔ ان کی اکثریت ملک کے شمال مغربی علاقوں میں رہتی ہے۔ آذری ایران کا سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہیں اور ان کے مطابق ایرانی حکومت اس کے حقوق دینے سے قاصر ہے۔
فارس نیوز کے مطابق اس صورتحال نے تہران اور باکو کے درمیان صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ ستمبر میں آذربائیجان نے باکو میں ترکی اور پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ اس پر ایران کا کہنا ہے کہ بحیرہ کیسپین میں غیر قطبی ریاستوں کی فوجی موجودگی کی قانونی حیثیت نہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا کہ بحیرہ کیسپین کے قانونی کنوینشنوں کے مطابق اس سمندر میں غیر ساحلی ریاستوں کی فوجی موجودگی غیر قانونی ہے۔ آذربائیجان کی نکیچیوان کے علاقے میں ترکی کے ساتھ ایک اور مشترکہ فوجی مشق بھی جاری ہیں۔ ایران نے آذربائیجان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی ’مشکوک حرکتیں‘ بند کرے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ آذربائیجان، پاکستان اور ترکی کی حکومتوں کی طرف سے کی جانے والی فوجی مشقیں تشویشناک اور غیر قانونی ہیں۔ ایران آذربائیجان کی سرحدوں پر صورتحال کو قریب سے دیکھ رہا ہے اور کچھ مشکوک حرکتوں کے بارے میں خبردار کرتا ہے۔
ایرنی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ سفارتی طور پر، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر اپنے آذربائیجانی اور ترک ہم منصبوں سے ملاقات کی۔ عبداللہیان اور ان کے ترک ہم منصب مولود چاوش اوغلو نے تہران میں ایران، آذربائیجان اور ترکی کے سہ فریقی اجلاس پر اتفاق کیا۔ آذربائیجان کے وزیر خارجہ جیہون بیراموف نے عبداللہیان کے ساتھ ملاقات میں اجلاس کے انعقاد کا خیرمقدم کیا۔ بیراموف نے عبداللہیان کو بتایا کہ جمہوریہ آذربائیجان کی جانب سے شاہین مصطفائیف اپنے ایرانی ہم منصب سے دونوں ممالک کے مشترکہ کمیشن کے اندر رابطہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
عبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ تیسرے فریق کو دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے تیسرے فریق کا نام نہیں لیا لیکن کہا کہ ’اسرائیل جنوبی قفقاز کے علاقے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور آذربائیجان کو اس کی اس حرکت سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ ایرانی سپریم لیڈر کے نمائندے آیت اللہ سید حسن آملی نے کہا کہ آذربائیجان سرحدوں کے ساتھ پاسداران انقلاب کی مشقیں اسرائیل کو پیغام دیتی ہیں کہ اسے کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایران کو اسرائیل، امریکا سمیت دیگر کافر ممالک کے ساتھ مل کر شام میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرتے وقت یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ وہ کیا غلطی کر رہا ہے۔