سینیٹ بل امریکا کی تباہی کا پیش خیمہ؟

483

افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد نے کہا کہ امریکی سینیٹ میں پیش کردہ بل ’’افغانستان کاؤنٹر ٹیررازم، اوور سائٹ اینڈ اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ‘‘ کی مدد سے امریکا پاکستان سے افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ جس کے بعد پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ سمیت ہر طرح کی اقتصادی مارکیٹوں میں بحران کا سامنا ہے اور پاکستان کی کرنسی کو عالمی سطح پر شدید مندی کا سامنا ہے اور اس سے پاکستانی معیشت کو خسارے کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔
اس بل میں پاکستان کو عالمی سطح پر اقتصادی پابندی لگانے کے لیے ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جم رشک جن کا امریکی یہودی لابی سے گہرا تعلق ہے نے 21 ساتھی سینیٹرز کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ’افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے فیصلے‘ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لینے اور افغان طالبان و ان کی مدد کرنے والی حکومتوں، بالخصوص پاکستان پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق بل میں امریکی حکومت سے کہا گیا ہے کہ: ’امریکی حکام جائزہ لیں کہ 2001 سے لے کر 2020 کے دوران پاکستان سمیت طالبان کو مدد فراہم کرنے والے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کا کردار کیا تھا اور اس میں طالبان کو محفوظ پناہ گاہوں، مالی اور انٹیلی جنس مدد، طبی ساز و سامان، تربیت اور تکنیکی یا اسٹرٹیجک رہنمائی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ حکومت ِ پاکستان سمیت ریاستی اور غیرریاستی عناصر کی جانب سے طالبان کو 2021 کی اس کارروائی میں کتنی مدد حاصل رہی جس کا نتیجہ افغانستان کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا اور یہ کہ پاکستان سمیت یہ عناصر 2021ء ہی میں وادی پنج شیر میں مزاحمتی فورس کے خلاف طالبان کے آپریشن میں کیسے مددگار رہے؟ امریکی انتظامیہ سے ان معاملات کی تحقیقات کے بعد ’180 دن میں پہلی رپورٹ‘ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس مسودے میں امریکی محکمہ خارجہ سے افغانستان سے امریکی شہریوں اور افغان اسپیشل امیگرنٹ ویزا رکھنے والے افراد کو نکالنے کے لیے ٹاسک فورس قائم اور بل میں طالبان کے خلاف مقابلے اور طالبان کے پاس امریکی ساز و سامان اور اسلحے کو واپس حاصل کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ بل میں سب سے اہم جزو ان عناصر پر پابندی کا مطالبہ ہے جن پر طالبان کو مدد فراہم کرنے کا الزام ہے اور اس میں بیرونی حکومتیں بھی شامل ہیں اور پاکستان کا اس میں بالخصوص نام لیا گیا ہے۔
بل کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان کو ’وار آن ٹیرر‘ میں امریکی اتحادی ہونے کی سزا مل رہی ہے حالانکہ ’امریکا اور ناٹو نے 20 سال کا عرصہ گزرنے کا باوجود افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں کی‘۔80 ہزار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پاکستان کو مورد الزام ٹھیرایا جا رہا ہے حالانکہ ’یہ کبھی بھی پاکستان کی جنگ نہیں تھی‘۔ انہوں نے ٹویٹ میں سوال اٹھایا کہ امریکا کی جانب سے 20 کھرب ڈالر کی امداد کدھر گئی؟ شیریں مزاری صاحبہ! ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ آپ کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ تمام ہی سیکولرز اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بے دین کافر آج سے 20سال قبل پاکستان بھر کے علماء کو لعن طعن کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان علماء کو امریکا کی طاقت علم نہیں ہے امریکا کا ساتھ دینا ضروری ہے شیریں مزاری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’افغان آرمی اتنی جلدی کیسے ختم ہو گئی؟ پاکستان سے طالبان کی قیادت کو رہا کرنے کا مطالبہ کس کا تھا؟ دوحا میں طالبان سے معاہدہ کس نے کیا اور ان کی واشنگٹن ڈی سی میں میزبانی کس نے کی؟
کیا یہ بل واقعی پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟ واشنگٹن ڈی سی میں تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجی اینڈ پالیسی نے اس بل کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی نظر میں یہ بل امریکا کی اپنی مقامی سیاست کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے اور ریپبلکن پارٹی اگلے ایک سال میں ہونے والے وسط مدتی الیکشن کا سوچ رہی ہے۔ اس بل کی حمایت میں صرف 22 ارکان ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ریپبلکن پارٹی کے اور کتنے ارکان اس کی حمایت کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے امریکا میں خارجہ پالیسی پر کام کرنے والوں کے ذہنوں میں پاکستان کے لیے جارحانہ اور منفی تاثرات ہیں لیکن 20 سال سے آنے والی تمام امریکی حکومتیں پاکستان کی اہمیت کو سمجھتی ہیں۔
اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ امریکی حکومت پاکستان پر حد درجہ دباؤ ڈال رہی ہے اور ڈالے گی اور بہت ممکن ہے کہ انتظامیہ اس بل کو وجہ بناتے ہوئے پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرے۔ ’جو بائیڈن انتظامیہ یہ کہہ سکتی ہے کہ دیکھیں یہ بل ری پبلکن پارٹی نے پیش کیا ہے اور اس میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن آپ بتائیں کہ آپ کیا دے سکتے ہیں، تاکہ ہم اس کی مدد سے اس بل کو روک سکیں‘۔ اس طرح صدر بائیڈن کے لیے پاکستان کو بلیک میل کر نا آسان ہو جائے گا۔ پاکستان کے اہل ِ دانش جن میں سید منور حسن اوردیگر علماء شامل ہیں نے پہلے ہی ان حالات کی نشاندہی کردی تھی اور اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان اور امریکا نے جیسے تیسے ایک دوسرے کے ساتھ 20برس گزار تو لیے لیکن اب کیونکہ امریکا چین کو اپنا حریف اور پاکستان کو چین کا حمایتی سمجھتا ہے اور ابھی تک امریکا نے پاکستان کی جانب دوستانہ ہاتھ نہیں بڑھایا ہے تو ان دونوں ممالک کے مستقبل کے تعلقات غیر یقینی نظر آتے ہیں۔ لیکن اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس بل میں پاکستان پر لگائے گئے الزامات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں یا ان میں حقیقت ہے؟
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے پاکستان کی جانب سے عالمی برادری سے مطالبہ سامنے آ چکا ہے کہ وہ طالبان کو ’موقع‘ دیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں دوشنبے میں کہا تھا کہ انہوں نے تمام گروہوں کی نمائندہ حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی اخلاقی مدد اور حمایت نہ ہوتی تو طالبان کامیابیاں حاصل نہ کر پاتے۔ ’لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہوگی کہ پاکستان نے طالبان کی مدد کیوں کی؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کو افغانستان کی سرزمین پر بھارت کے اثر ورسوخ روکنے کے لیے ان کی مدد کی ہے جس کی امریکا حمایت کر رہا تھا۔ اس بل میں پنج شیر کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو بھی شامل کیا گیا ہے جو پوری دنیا میں ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ عالمی اخبارات کا کہنا ہے کہ پاکستان کا قصور یہ ہے کہ اس نے طالبان پر اس وقت اتنا دباؤ نہیں ڈالا جب ان کو کرنا چاہیے تھا اور جب وہ کر سکتے تھے۔ ’پاکستان کے پاس بہت مواقع تھے جب وہ طالبان کے خلاف ٹھوس اقدامات لے سکتے تھے۔ لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکی سینیٹ میں پاکستان پر ’پابندیوں کا مطالبہ‘ خطرے کی گھنٹی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس بات کو اچھی طر ح سمجھ لے اب امریکا دنیا کا بڑا نہیں شکست کے گڑھے میں دھنسا ہو ا ملک بن چکا ہے۔ سینیٹ بل امریکا کو تباہ کر دے گا۔