امریکی سینیٹ کچھ نہیں بگاڑ سکتی

637

ایک جانب امریکی سینیٹ میں امریکی حکام جن میں سیکرٹری اسٹیٹ انتونی بلنکن، امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی، سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ مکینزی، وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن سے سینیٹ کی کمیٹی برائے مسلح افواج نے چھ گھنٹے تک افغانستان سے امریکی انخلا اور کابل ائرپورٹ پر افراتفری کے بارے میں سوالات کیے۔ سینیٹرز نے ’’امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی سے معلوم کیا کہ افغانستان میں عبرتناک شکست کے باجود آپ نے استعفا کیوں نہیں دیا؟‘‘ جس کے جواب میں جنرل مارک ملی نے کہا وہ استعفا کیوں دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے امریکا وہ ملک ہے جہاں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔
لیکن اس کے ساتھ امریکی کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس کا انعقاد کیا گیا یو ایس ڈیپاٹمنٹ آف اسٹیٹ کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں G5+1 افغانستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، کرغزستان، قازقستان شامل ہیں کے ساتھ اچھے تعلقات کا عندیہ دیا گیا۔ یو ایس ڈیپاٹمنٹ آف اسٹیٹ کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے امریکا کی جانب سے افغان عوام کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ اُدھر یورپی یونین نے بھی افغانستان کے لیے 300ملین کی امداد جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بیان جاری کر دیا گیا ہے کہ امریکا طالبان کی اجازت کے بغیر افغانستان میں حملے کر سکتا ہے۔ طالبان کی اجازت کے بغیر افغانستان میں طیاروں کی پروازوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں امریکا کا کہنا تھا کہ امریکا کو آپریشن کرنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کا اختیار حاصل ہے۔ امریکی فوج کے کمانڈر جنرل گلین وان ہیرک نے بتایا کہ 53 ہزار افغانی امریکا میں فوجی بیرکوں میں ہیں اور وہ امیگریشن کاغذات کی تکمیل تک رہیں گے۔ پروازیں فی الحال معطل ہیں جلد بحال ہو جائیں گی۔
امریکا کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت کا سینیٹ میں کہنا ہے کہ اْنہوں نے صدر جو بائیڈن کو مشورہ دیا تھا کہ وہ افغانستان میں امریکا کے کم از کم 2500 فوجی برقرار رکھیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی اور امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ مکینزی نے کہا کہ اْنہوں نے ذاتی طور پر افغانستان میں 2500 امریکی فوجی برقرار رکھنے کی سفارش کی تھی۔ واضح رہے کہ صدر جو بائیڈن نے 19 اگست کو اے بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ اْنہیں یاد نہیں کہ کسی نے اْنہیں ایسا مشورہ دیا ہو۔
طالبان اور پاکستان کے خلاف 2019 میں نئی دہلی میں بھارت اور 5 وسطی ایشیائی ممالک نے افغانستان کے ہمراہ دہشت گردی کی ہر طرح سے مذمت کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے عالمی سطح پر امن کو لاحق خطرے سے لڑنے کے لیے تعاون پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اب امریکا انہیں ممالک کو دوبارہ فعل کرنے کے لیے G5+1 کو فعل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ وسطی ایشیائی ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے بھی رکن ہیں جس میں بھارت نے بھی 2019ء میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ ’تمام ممالک نے سیکورٹی، استحکام اور ترقی کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے باہمی حمایت، مشترکہ حل اور دیگر امور میں تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اجلاس میں شریک ممالک نے ’’معاشی تعاون کو بڑھانے اور باہمی تجارت اور موزوں حالات پیدا کرنے کے لیے حقیقی مواقع پیدا کرنے اور باہمی تعاون مضبوط کرنے کا اظہار کیا‘‘۔ اس کے علاوہ رکن ممالک نے باہمی تجارت، سرمایہ کاری بڑھانے، صنعتوں میں جدت، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فارماسیوٹیکل، زراعت اور تعلیم کے فروغ کے لیے مواقع پیدا کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی۔ لیکن ان میں سے کسی پر کوئی کام نہیں ہو سکا۔ لیکن پاکستان پر دہشت گردی میں اضافہ کا سلسلہ جاری رہا۔
اسی تناظر میں ایرانی فوج نے یکم اکتوبر 2021ء کی صبح کو آذربائیجان کی سرحدکے ساتھ واقع ’’صوبے آذربائیجان‘‘ میں فوجی مشق کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایران اور آذربائیجان کے درمیان تعلقات میں تناؤ پہلے سے موجود ہے اور اب ایرانی فوج کی مشق سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی فارس نے 30ستمبر کو بری فوج کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل کیومارس حیدری کے حوالے سے بتایا تھا کہ یہ مشق شمال مغربی ایران میں ’’حربی تیاریوں کی جانچ اور انہیں بہتربنانے کے مقصد‘‘ سے کی جائے گی۔ تسنیم نیوز ایران کے مطابق مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان 628 عیسوی میں برپا ہونے والے معرکہ خیبر کے حوالے سے اس مشق کو ’’فاتح خبر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ آذربائیجان صہیونی ریاست اسرائیل سے اسلحہ کا بڑا خریدار ملک ہے۔ اس بنا پر ایران آذربائیجان کے ساتھ تعلقات میں محتاط رہا ہے۔ آذری صدرالہام علیوف نے ایران کو اپنے ملک کی سرحدکے قریب فوجی مشقیں کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے مگر اس کے باوجود ایران نے یہ مشق کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صدر علیوف نے 27اکتوبر کو ترکی کی
سرکاری خبررساں ایجنسی اناطولو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہر ملک اپنے علاقے میں کوئی بھی فوجی مشق کرسکتا ہے۔ یہ ان کا خودمختارانہ حق ہے لیکن ایران ہماری سرحد ہی پر کیوں یہ مشق کررہا ہے؟‘‘ صدر علیوف نے کہا کہ ’’جب آرمینیائی جبرائیل، فزولی اور زنگیلان کے علاقوں میں تھے تو مشقیں کیوں نہیں کی گئیں؟ ان علاقوں کو 30 سال کے قبضے کے بعد آزاد کرانے کے بعد ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟‘‘ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے منگل کے روز کہا کہ ’’آذربائیجان کے ساتھ سرحد کے قریب ہونے والی فوجی مشقیں ’’خودمختاری کا سوال‘‘ ہیں، تہران اپنی سرحدوں کے قریب صہیونی حکومت کی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا‘‘۔ واضح رہے کہ ایران اور آذربائیجان کے درمیان واقع سرحد قریباً 700 کلومیٹر (430 میل) طویل ہے۔ ہم اپنے انہیں کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ ایران میں آذری نسل کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ان کی اکثریت ملک کے شمال مغربی علاقوں میں رہتی ہے۔ آذری ایران کا سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہیں۔
پاکستان کو ان تمام صورتحال کی روشنی یہ بات یاد رکھنا ہے کہ امریکا آج بھی افغانستان پر حملے لیے فضائی راہداری مانگ رہا ہے جہاں سے وہ طالبان کو نشانہ بنا سکے۔ اس سلسلے میں امریکی سینیٹ میں ایک مرتبہ پھر سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ مکینزی نے بیان دیا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان سے بات چیت چل رہی اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے یہ بات چیت 4ماہ سے چل چل کر تھک چکی ہے اور امریکا پاکستان سے یہ بھی کہہ رہا ہے وہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے اس لیے ضروری ہے پاکستان اپنے اُس انکار پر قائم رہے کہ نہ اڈے دینا ہے اور نہ ہی امریکا کی مرضی سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہے۔ امریکی سینیٹ میں کوئی دم خم نہیں وہ پاکستان کا کچھ نہیں کر سکتی ہے۔