!!جب سیاست بن جائے دھندا

491

پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں گزشتہ 40 سال سے ہائوس آف شریف، ہائوس آف زرداری اور ان کے اتحادیوں کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ باری باری یہ اقتدار میں آتے رہے ہیں کرپشن ہوتی رہی۔ قومی خزانہ لوٹا جاتا رہا۔ یہ کرپشن اس نوعیت کی ہوئی کہ اس کے ثبوت اور شواہد بھی برابر غائب کروائے جاتے رہے جن اعلیٰ افسران کو اس ضمن میں استعمال کیا گیا وہ بھی اس لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرتے رہے۔ افسران کو ناجائز ترقیاں دے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا آج پورے کا پورا نظام اسی بنا پر مفلوج ہوچکا ہے۔ تمام قومی ادارے اپنی اہمیت اور اعتماد کھو چکے ہیں، عدالتوں کے فیصلے اپنی حیثیت گنوا چکے ہیں۔ میاں نواز شریف کو سزا ہوئی وہ لندن میں بیٹھے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں ہر روز قومی اداروں اور افواج پاکستان پر گرجتے برستے ہیں۔ ذرا تصور کرلیں کہ سزا یافتہ آدمی پورے نظام کو ماموں بنا گیا ہماری عدالتیں مجبور ہوگئیں، ہمارے قومی ادارے بے بس ہوگئے اور وہ جیل سے اسپتال میں وی آئی پی بن کر رہا اور پھر وہاں سے وی آئی پی بن کر ائرایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچ گیا۔ کیا کرلیا ہمارے قانون نے، کہاں گئی قانون کی حاکمیت؟ اب رہا مسئلہ ہماری سیاست میں سوشل میڈیا کا اور پھر نئی خطرناک وبا کا جو اب سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، اس کی زد میں نہ صرف قومی ادارے آرہے ہیں بلکہ ہماری عدالتیں اور اعلیٰ شخصیات بھی برابر اس کی زد میں ہیں، یعنی ایک دوسرے کی کردار کشی کے لیے ’’ویڈیوز‘‘ کا منظر عام پر آنا، ان میں کیا ہوتا ہے اس کا تذکرہ کرنا بیکار ہے یہ ویڈیوز کون بناتا ہے؟ کون بنواتا ہے؟ اس پورے کھیل کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ ہر کسی کو پوری طرح معلوم ہے، جب ہماری سیاست دھندا بن جائے گی تو پھر یہ سب کچھ تو ہوگا، اقتدار حاصل کرنے کے لیے اخلاقی حدیں تو پامال ہوں گی۔ پاکستان کے کسی دشمن ملک کو اب کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی، ہمارا سوشل میڈیا ہی کافی ہے جو پاکستان دشمن ایجنڈے کی پاکستانی معاشرے میں تکمیل کروارہا ہے۔
امریکا اپنی تاریخ کی مہنگی اور طویل ترین جنگ افغانستان میں ہار چکا ہے اور اب بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکا مل کر QUAD کی سربراہ کانفرنس بھی کرچکے ہیں۔ اس کانفرنس کے مقاصد ہی یہ تھے کہ اب ’’نیا گیم‘‘ پلان تیار کیا جائے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سیاسی اور معاشی سطح پر ناکام کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جواز بنا کرخطے میں نئی جنگ کا آغاز کردیا جائے جس میں پاکستان کو میدان جنگ میں تبدیل کرکے عالمی طاقتیں اپنے مقاصد حاصل کریں۔ پاکستان پر آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے علاوہ ورلڈ بینک کے ذریعے بھی دبائو بڑھایا جائے یہ آنے والے دنوں میں ہونے جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم بعض گروپس جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں ان کو بھی بھارتی ’’را‘‘ اور امریکی سی آئی اے کے ذریعے سرمایے کی فراہمی ہورہی ہے۔ ان حالات میں لندن میں میاں نواز شریف اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار بھی اسی کھیل کا حصہ بن کر پاکستان کے قومی اداروں اور خاص طور پر افواج پاکستان کے خلاف جو زبان استعمال کرتے ہیں ان کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا مستقبل میں مریم نواز کو وہ وزیراعظم بنوانے کے لیے غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار بن کر قومی سلامتی سے کھیل رہے ہیں اور پاکستان میں میاں شہباز شریف جو کردار ادا کررہے ہیں یہ سب کچھ اس امر کا بڑا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستان میں اب سیاست ایک دھندے کی شکل اختیار کرچکی ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی چلی جارہی ہے۔
ذرا ٹائمنگ دیکھیں کہ امریکی سینیٹ میں طالبان اور ان کی حمایت کرنے والے ممالک اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا بل پیش کردیا گیا ہے۔ ری پبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے اپنے دیگر 21 سینیٹرز کے ساتھ مل کر یہ بل پیش کیا ہے۔ اس بل کو افغانستان کے لیے انسداد دہشت گردی، نگرانی اور احتساب کا بل کا نام دیا گیا ہے، اس بل میں بتایا گیا ہے کہ روس اور چین اور طالبان کی طرف سے جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کو سیکورٹی اور اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس بل کے مطابق پاکستان سمیت ایسے ممالک، اداروں اور نا اسٹیٹ ایکٹرز کی ہر قسم کی اقتصادی، مالی اور عسکری امداد بند کردی جائے گی جن کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ رپورٹ دیں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کو گرانے میں طالبان کی مدد کی اور پھر پنج شیر میں طالبان کو فتح دلوانے کے لیے بھی پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہ بل پاکستان میں امریکی پابندیوں کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ جب سیاست دھندا بن جائے تو پھر غیر ملکی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر ہر حربہ استعمال کرکے اپنا راستہ ہموار کرتی ہیں، ہمیں اب محتاط رہنا ہوگا۔