پاکستان تو ہمیشہ امریکا کا مدد گار رہا ہے

423

امریکی سینیٹ میں طالبان کے مددگار ممالک پر پابندی کا بل پیش کر دیا گیا ہے کہ طالبان کی حمایت کرنے والے ممالک کی فوجی‘ اقتصادی اور مالی امداد بند کر دی جائے۔ اس بل میں پاکستان کا نام بھی شر انگیزی کے طور پر شامل کر لیا گیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بل میں پاکستان کے ذکر کو بلاجواز قرار دیا ہے اور تمام حوالہ جات کو افغان امن عمل میں سہولت کاروں اور امریکا کے ساتھ تعاون کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔ اس ردعمل میں سفارتی آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مستقبل میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان سیکورٹی تعاون اہم رہے گا۔ یہ بات تو درست ہے لیکن یہ ساری باتیں ہو کیوں رہی ہیں؟ پاکستان تو چالیس برس سے امریکا کا ساتھ دے رہا ہے اور گزشتہ بیس برس میں تو افغانستان میں طالبان کے خلاف ہر ممکن اور ناممکن تعاون بھی کرتا رہا ہے۔ پہلے سوویت یونین کو افغانستان سے نکلوانے میں امریکا کے ساتھ تعاون کیا تھا‘ بلکہ افغان مجاہدین کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں بھی پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا۔ جب‘ جس کو مانگا گیا پاکستان نے ہاتھ پائوں باندھ کر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر اُسے امریکا کے حوالے کر دیا۔ ڈاکٹر عافیہ سمیت سیکڑوں لوگوں کو فروخت کیا۔ لیکن امریکا کہہ رہا ہے کہ پاکستان طالبان کی مدد کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔
پاکستان کی جانب سے تو سفارتی مراسلہ کچھ اس طرح جانا چاہیے تھا کہ محترم چیئرمین امریکی سینیٹ اور معزز سینیٹرز گزارش یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ تقریباً چالیس برس سے افغانستان میں امریکی سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے‘ جیسے جیسے‘ جب جب حکم ہوا پاکستان نے اُس پر عمل کیا‘ جناب کے ایک اشارے پر ہم نے اپنے ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹی‘ جنرل پرویز 8 برس اقتدار میں رہے اور امریکی دوستوں کی فہرست میں پاکستان کو رکھنے کے لیے ہر طرح کے جتن کیے۔ وزیرستان کی طرف اشارہ ہوا تو آپریشن کر دیا‘ بمباری کی ضرورت نہ بھی ہو تو کر ڈالی۔ پورا سوات خالی کرا لیا گیا۔ اسلامی ناموں والی تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور اسے چلانے والے افراد کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ ڈاڑھی کا مطلب دہشت گرد قرار پایا۔ جناب ہم نے تو طالبان کے خلاف ہر طرح تعاون کیا یہ تو آپ ہی تھے جو شکست کا اعتراف کر کے چلے گئے ورنہ ہم تو ڈٹے ہوئے تھے۔ آپ کے جانے کا فیصلہ ہم نے تو نہیں کیا‘ ہم نے تو آپ کو مشورہ دیا تھا کہ ابھی نہ جائو… لیکن آپ کے نئے صدر نہ مانے اور مکمل انخلا پر بضد رہے۔ اس میں ہمارا کیا قصور۔ پھر بھی ہم مستقبل میں ہر خدمت کے لیے تیار ہیں‘ اسے بھی ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیں گے اور امریکا سے ہر ممکن و ناممکن تعاون کریں گے خواہ اس کام میں پاکستان کا بیڑہ غرق ہو جائے اور ہاں پاکستانی پارلیمنٹ کی قراردادوں کی فکر نہ کریں کہ آئندہ دوسروں کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے وغیرہ… پارلیمنٹ تو بل پاس کرتی رہتی ہے اور اسے بائی پاس کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے تو بڑی آسانی ہے۔ جنرل مشرف پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی سب کے نمائندے آج کل وزیر خارجہ ہیں گویا تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔ یہ ہر پارٹی سے ہو کر آج کل پی ٹی آئی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
ظاہر ہے ایسا مراسلہ پاکستانی دفتر خارجہ نہیں لکھے گا لیکن دل جلنے کی وجہ سے تحریر کر دیا تھا۔ ویسے امریکی سینیٹ سے سوال کیا جانا چاہیے کہ اس وقت طالبان کی سب سے بڑی مددگار ریاست تو امریکا ہے اس نے شکست کھائی‘ تسلیم کی اور اپنی فوج افغانستان سے نکال لی۔ اگر امریکا طالبان سے لڑتا رہتا‘ ہم بھی انہیں دہشت گرد کہتے رہے۔ پاکستان نے قطر میں طالبان کا دفتر قائم نہیں کیا تھا‘ یہ تو امریکیوں نے خود ہی کیا تھا۔ اسی طرح افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ ہم نے تو نہیں کیا تھا۔ امریکی جنرل نے تو بائیڈن کو مشورہ دیا تھا کہ ابھی افغانستان سے نہ نکلیں لیکن بائیڈن نہ مانے۔
پاکستان کو امریکی سینیٹ کو بتانا چاہیے کہ پاکستان میں جنرل کوئی مشورہ دے دے تو حکومت اس پر من و عن عمل کرتی ہے بلکہ دیگر معاملات میں بھی جنرل سے مشورے لیے جاتے ہیں۔ یہ جوبائیڈن کس قسم کے صدر ہیں کہ اپنے جنرل کے مشورے نہیں مانتے… اب بھگتیں۔ ہمیں کیوں دوش دیتے ہیں‘ ویسے پاکستان میں بھی جنرل کے مشورے نہ ماننے والوں کو بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ یہ عجیب جنرل ہے کہتا ہے کہ اگر استعفا دے دیتا تو یہ سیاسی فیصلہ ہوتا اور فوجی جرنیل کا سیاسی فیصلے کرنا آئین سے بغاوت قرار پاتا۔ یہ جنرل مل کیا چیز ہے اسے اتنا بھی نہیں پتا کہ سیاسی اور غیر سیاسی تمام فیصلے جرنیل ہی کو کرنے چاہئیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر امریکا نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اس سے دوستی اور دشمنی دونوں بری ہیں لیکن اس سے دوستی زیادہ نقصان دہ ہے۔ امریکا نے ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہی کیا ہے اور پاکستان دوست کب تھا‘ ہمیشہ امریکا کا معاون رہا ہے‘ اپنی شکست کی وجہ سے امریکی مخبوط الحواس ہو گئے ہیں ان کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنی شکست کا ملبہ کہاں ڈالیں۔ ہمیشہ اپنے کسی کمزور حلیف یا پاکستان جیسے ملک پر ملبہ ڈالا اور وہ اس کی تیاری بھی کرتا رہتا ہے۔ مختلف شوشے چھوڑے جاتے ہیں جو ریکارڈ پر رہتے ہیں۔ بعد میں انہی میں سے کوئی بات اچھال دی جاتی ہے۔ اب بھی یہی کیا جا رہا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قومی مفاد اور وقار کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔ امریکا کے بارے میں تو کہا ہی جاتا ہے کہ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔